Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 78
وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مَا هُوَ مِنَ الْكِتٰبِ١ۚ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ مَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ۚ وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَاِنَّ : اور بیشک مِنْھُمْ : ان سے (ان میں) لَفَرِيْقًا : ایک فریق يَّلْوٗنَ : مروڑتے ہیں اَلْسِنَتَھُمْ : اپنی زبانیں بِالْكِتٰبِ : کتاب میں لِتَحْسَبُوْهُ : تاکہ تم سمجھو مِنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب وَمَا : حالانکہ نہٰں ھُوَ : وہ مِنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں ھُوَ : وہ مِنْ : سے عِنْدِ : طرف اللّٰهِ : اللہ وَمَا : حالانکہ نہیں ھُوَ : وہ مِنْ : سے عِنْدِ : طرف اللّٰهِ : اللہ وَيَقُوْلُوْنَ : وہ بولتے ہیں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ وَھُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں
اور ان ہی اہل کتاب میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے وقت زبان کو کچھ اس طرح پھیر دیکر پڑھ جاتے ہیں کہ تم اس تحریف شدہ حصہ کو کتاب ہی کا حصہ سمجھو حالانکہ وہ کتاب کا حصہ نہیں ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو ہم نے پڑھا ہے وہ اللہ کے پاس سے نازل شدہ ہے حالانکہ وہ اللہ کی جانب سے نازل شدہ نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں3
3۔ اور بلا شبہ ان اہل کتاب میں سے بعض لوگ ایسے چالاک ہو شیار ہیں کہ وہ کتاب پڑھنے میں اپنی زبانوں کو کچھ ایسا الٹ پھیر دے کر پڑھتے ہیں تا کہ تم لوگ اس بناوٹی اور ملاوٹی ہوئی چیز کو بھی کتاب ہی کا ایک حصہ سمجھو حالانکہ جو کچھ انہوں نے زبان کو پھیر دے کر پڑھا ہے وہ کتاب کا حصہ نہیں پھر یہی نہیں کہ اتنی ہی تحریف پر بس کریں ۔ اس کے بعد زبان سے بھی کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے پڑھا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے پاس ناز ل شدہ ہے ، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ بات منسوب کرتے ہیں۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ تحریف لفظی کرتے ہیں کہ غیر کتاب کو کتاب کہہ کر پڑھ جاتے ہیں اور پڑھتے بھی کچھ اس طرح زبان کو دبا کر اور پھیر دے کر پڑھتے ہیں کہ سننے والے کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبارت بھی کتاب کی ہے اور ہوسکتا ہے کہ تحریف معنوی کی طرف اشارہ ہو کہ کتاب کا مطلب کچھ اس طرح چکر دے کر بیان کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی کتاب کا مطلب یہی ہوگا حالانکہ مطلب وہ نہیں ہوتا۔ پھر زبان سے ان الفاظ کی یا اس مضمون کی توثیق بھی کرتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے پڑھا ہے یا جو کچھ ہم نے بیان کیا وہی اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے اور یا یہی الفاظ خدا کی جانب سے آئے ہیں حالانکہ نہ وہ خدا کا منشا ہے نہ وہ الفاظ خدا کے نازل کردہ ہیں ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنے مطب کے لئے جان بوجھ کر خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یعنی بن پڑھوں کو دغا دیتے ہیں اپنی عبارت بنا کر قرآن کی طرح پڑھنے لگے کہ اللہ نے یوں فرمایا ہے۔ ( موضح القرآن) لی کے معنی بٹنے کے ہیں یہاں مراد یہ ہے کہ زبان کو پیچ دے کر اور مروڑ کر ایسی بات کہی جائے جس سے حق کے ساتھ باطل مخلوط اور ملتبس ہوجائے اس امت میں اگرچہ تحریف لفظی کا موقع اہل باطل کو میسر نہیں آسکا لیکن اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ تحریف معنوی میں اس امت کے اہل باطل اور علماء سوء نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق یہود و نصاریٰ دونوں سے ہے۔ اسی لئے ہم نے ترجمہ میں اہل کتاب کا لفظ اختیار کیا ہے ہوسکتا ہے کہ فقط یہود یا فقط نصاریٰ مراد ہوں اگرچہ ظاہری ہے کہ دونوں مراد ہیں ۔ اب آگے ابو رافع قرظی کے الزام کا رد ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)
Top