Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 26
اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
اِذْ جَعَلَ : جب کی الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ قُلُوْبِهِمُ : اپنے دلوں میں الْحَمِيَّةَ : ضد حَمِيَّةَ : ضد الْجَاهِلِيَّةِ : زمانۂ جاہلیت فَاَنْزَلَ اللّٰهُ : تو اللہ نے اتاری سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسلی عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول پر وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومنوں پر وَاَلْزَمَهُمْ : اور ان پر لازم فرمادیا كَلِمَةَ : بات التَّقْوٰى : تقوی کی وَكَانُوْٓا : اور وہ تھے اَحَقَّ بِهَا : زیادہ حقدار اس کے وَاَهْلَهَا ۭ : اور اس کے اہل وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمًا : جاننے والا
وہ واقعہ بھی قابل ذک رہے جبکہ ان کافروں نے اپنے قلوب میں اس غیرت وحمیت کو جگہ دی جو جاہلیت کی حمیت تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اور مسلمانوں کو اپنی طرف سے ضبط وایمان عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پرہیزگاری کی بات پرجمائے رکھا اور مسلمان ہی اس تقوی کی بات کے زیادہ حقدار اور اس کلمہ تقویٰ کے حقیقی اہل ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر شئے کو خوب جانتا ہے۔
(26) اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جبکہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں اس غیرت وحمیت اور عار کو جگہ دی جو جاہلیت کی غیرت وحمیت اور عار تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا سکینہ اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر نازل فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی بات پر ثابت اور جمائے رکھا اور وہ مسلمان اس کلمہ تقویٰ کے زیادہ حقدار اور تقویٰ کی بات کے حقیقی اہل ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر شئی کو خوب جانتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک ضد یہ کہ اس سال عمرہ نہ کرنے دیا اور یہ کہ جو مسلمان ہجرت کرے پھر بھیجو اور اگلے سال عمرے کو آئو تین دن سے زیادہ نہ رہو اور ہتھیار کھلے نہ لائو ۔ حضرت ﷺ نے یہ سب قبول کرلیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ کافروں نے کس قدر جاہلانہ ضدیں اور ہٹیں کیں۔ رسول اللہ کا کٹواکر محمد بن عبداللہ کا لکھوانا بسم اللہ الرحمن الرحیم کٹوا کر باسمک اللھم لکھوانا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسی غیرت اور عار ہے جس کو جاہلیت کی عار اور حمیت و غیرت سے تعبیر فرمایا ہے کفار نے انتہائی تنگ دلی کا ثبوت دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر سکینہ یعنی ضبط تحمل اور رواداری نازل فرمائی اور مسلمانوں کو تقویٰ اور پرہیزگاری پر جمائے رکھا مسلمان باوجودناراضگی اور کفار کی بےہودگیوں سے تنگ آنے کے پھر بھی کلمہ توحید اور پیغمبر کی فرماں برداری پر جمے رہے اسی لئے فرمایا وکانوا احق بھاواھلھا کہ یہ مسلمان دنیا میں بھی کلمہ تقویٰ کے غیروں سے زیادہ حق دار ہیں اور قیامت میں بھی اس کے اجروثواب کے اہل ہیں ۔ اس ضبط و تحمل کا تقاضہ تھا کہ نبی کریم ﷺ نے کفار کی ان سب باتوں کو تسلیم کرلیا اور مسلمانوں نے اپنی رواداری سے پیغمبر کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے یعنی ان کی ضدوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے صبروتحمل کو بھی جانتا ہے اور اپنی حکمتوں اور اپنے مصالح کو بھی جانتا ہے کہ ان تمام موانع پر وہ اثر مرتب فرمایا کہ جس کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ آگے نبی کریم ﷺ کے اس خواب کا ذکر فرماتے ہیں جس کا ہم نے سورت کی ابتداء میں ذکر کیا تھا۔
Top