Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 38
وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ١۫ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَۙ
وَعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَقَدْ : اور تحقیق تَّبَيَّنَ : واضح ہوگئے ہیں لَكُمْ : تم پر مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ : ان کے رہنے کے مقامات وَزَيَّنَ : اور بھلے کر دکھائے لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال فَصَدَّهُمْ : پھر روک دیا انہیں عَنِ : سے السَّبِيْلِ : راہ وَكَانُوْا : حالانکہ وہ تھے مُسْتَبْصِرِيْنَ : سمجھ بوجھ والے
اور ہلاک کیا عاد کو اور ثمود کو اور تم پر حال کھل چکا ہے ان کے گھروں سے اور فریفتہ کیا ان کو شیطان نے ان کے کاموں پر پھر روک دیا ان کو راہ سے اور وہ تھے ہوشیار
معارف و مسائل
ان آیات میں جن انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی قوموں کے واقعات اجمالاً بیان کئے گئے ہیں وہ پچھلی سورتوں میں مفصل آ چکے ہیں، مثلاً شعیب ؑ کا قصہ سورة اعراف اور ہود میں، اسی طرح عاد وثمود کا قصہ بھی اعراف اور ہود میں گذر چکا ہے اور قارون، فرعون، ہامان کا قصہ سورة قصص میں ابھی گذرا ہے۔
وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ ، استبصار سے مشتق ہے، جو بصیرت کے معنی میں ہے اور مستبصر بمعنی مبصر، مراد یہ ہے کہ یہ لوگ جو کفر و شرک پر اصرار کر کے عذاب میں اور ہلاکت میں مبتلا ہوئے کچھ بیوقوف یا دیوانے نہ تھے، دنیا کے کاموں میں بڑے مبصر اور ہوشیار تھے، مگر ان کی عقل اور ہوشیاری اسی مادی دنیا میں مقید ہو کر رہ گئی یہ نہ پہچانا کہ نیک و بد کی جزا و سزا کا کوئی دن آنا چاہئے جس میں مکمل انصاف ہو۔ کیونکہ دنیا میں تو اکثر مجرم ظالم دندناتے پھرتے ہیں اور مظلوم و مصیبت زدہ مجبور ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی انصاف کے دن کا نام قیامت اور آخرت ہے، اس کے معاملہ میں ان کی عقل ماری گئی۔
یہی مضمون سورة روم میں بھی آگے آنے والا ہے، يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ، یعنی یہ لوگ دنیاوی زندگی کے کاموں کو تو خوب جانتے ہیں مگر آخرت سے غافل ہیں۔
اور بعض ائمہ تفسیر نے وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ کے معنی یہ بتلائے کہ یہ لوگ ایمان اور آخرت پر بھی دل میں تو یقین رکھتے تھے اور اس کا حق ہونا خوب سمجھتے تھے، مگر دنیوی اغراض نے ان کو انکار پر مجبور کر رکھا تھا۔
Top