Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 38
وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ١۫ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَۙ
وَعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَقَدْ : اور تحقیق تَّبَيَّنَ : واضح ہوگئے ہیں لَكُمْ : تم پر مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ : ان کے رہنے کے مقامات وَزَيَّنَ : اور بھلے کر دکھائے لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال فَصَدَّهُمْ : پھر روک دیا انہیں عَنِ : سے السَّبِيْلِ : راہ وَكَانُوْا : حالانکہ وہ تھے مُسْتَبْصِرِيْنَ : سمجھ بوجھ والے
اور عاد و ثمود کو ہم نے ہلاک کیا، تم وہ مقامات دیکھ چکے ہو جہاں وہ رہتے تھے۔65 اُن کے اعمال کو شیطان نے اُن کے لیے خوشنما بنا دیا اور انہیں  راہِ راست سے برگشتہ کر دیا حالانکہ وہ ہوش گوش رکھتے تھے۔66
سورة العنکبوت 65 عرب کے جن علاقوں میں یہ دونوں قومیں آباد تھیں ان سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا۔ جنوبی عرب کا پورا علاقہ جو اب احقاف، یمن اور حضرت موت کے نام سے معروف ہے، قدیم زمانہ میں عاد کا مسکن تھا اور اہل عرب اس کو جانتے تھے۔ حجاز کے شمالی حصہ میں رابغ سے عقبہ تک اور مدینہ و خیبر سے تیما اور تبوک تک کا سارا علاقہ آج بھی ثمود کے آثار سے بھرا ہوا ہے اور نزول قرآن کے زمانہ میں یہ آثار موجودہ حالت سے کچھ زیادہ ہی نمایاں ہوں گے۔ سورة العنکبوت 66 یعنی جاہل و نادان نہ تھے۔ اپنے اپنے وقت کے بڑے ترقی یافتہ لوگ تھے۔ اور اپنی دنیا کے معاملات انجام دینے میں پوری ہوشیاری اور دانائی کا ثبوت دیتے تھے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ شیطان ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ان کی عقل سلب کر کے انہیں اپنے راستے پر کھینچ لے گیا۔ نہیں، انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر آنکھوں دیکھتے شیطان کے پیش کیے ہوئے اس راستے کو اختیار کیا جس میں انہیں بڑی لذتیں اور منفعتیں نظر آتی تھیں اور انبیاء کے پیش کیے ہوئے اس راستے کو چھوڑ دیا جو انہیں خشک اور بدمزہ اور اخلاقی پابندیوں کی وجہ سے تکلیف دہ نظر آتا تھا۔
Top