Mazhar-ul-Quran - Al-Ankaboot : 38
وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ١۫ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَۙ
وَعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَقَدْ : اور تحقیق تَّبَيَّنَ : واضح ہوگئے ہیں لَكُمْ : تم پر مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ : ان کے رہنے کے مقامات وَزَيَّنَ : اور بھلے کر دکھائے لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال فَصَدَّهُمْ : پھر روک دیا انہیں عَنِ : سے السَّبِيْلِ : راہ وَكَانُوْا : حالانکہ وہ تھے مُسْتَبْصِرِيْنَ : سمجھ بوجھ والے
اور2 ہم نے عاد اور ثمود کو بھی (ان کے کفر کی وجہ سے) ہلاک کیا اور تم کو ان کے بعض مکان (اب تک) نظر آرہے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال (بد) ان کی نگاہ میں بھلے کر دکھائے پس انہیں راہ (حق) سے روک دیا اور وہ لوگ سمجھ بوجھ رکھتے تھے ۔
)2) ان آیتوں میں فرمایا کہ عاد حضرت ہود (علیہ السلام) کی امت ہے اور ثمود حضرت صالح (علیہ السلام) کی امت ہے ۔ عرب کے لوگ ان کے مکانوں کو خوب جانتے پہچانتے تھے اور رات دن عرب کے لوگوں کا ان پر گزرہوتا تھا قارون بڑے خزانوں والا تھ اور فرعون شہر مصر کا بادشاہ تھا اور اس کا وزیر ہامان تھا اللہ تعالیٰ نے بسبب کفر کے ہر ایک کو اس کے گناہ کے مناسب عذاب میں پکڑا، قوم عاد نے دعوی کیا کہ ہم سے زیادہ قوت میں کون ہے ، ان کے اوپر بہت سخت آندھی آئی جو زمین سے کنکر پتھر اٹھا کر ان کو مارتی تھی اور ان کو اڑا کر آسمان سے سر کے بل پٹخ دیتی تھی کہ جس کے صدمہ سے دھڑ سے سر جدا ہو کر دھڑ کھجور کے تنے کی طرح زمین پر گرپڑتا۔ اور ثمود کہ ان کی درخواست کے موافق ایک اونٹنی پتھر سے پیدا ہوئی پھر بھی وہ یقین نہ لائے کفر پر اڑے رہے ۔ حضرت صالح کو اور جو ان پر ایمان لائے تھے ان کو ڈراتے کہ ہم تم کو بستی سے نکال دیں گے سنگسار کریں گے اللہ تعالیٰ نے ایک چنگھاڑ سے ہلاک کردیا، اور قارون کو کہ وہ اپنے آپ کو سب سے بہتر جانتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسادیا قیامت تک وہ دھنستا ہی چلاجائے گا اور فرعون اور اس کے وزیر ہامان کو مع اس کے لشکر کے ایک تھوڑی سی دیر میں دریا میں ڈبودیا کوئی خبردینے والا بھی باقی نہ رہا پھر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے تو ہر ایک کے واسطے ان کے پاس رسولوں کو بھیج دیا تھا، اور کتابیں بھی نازل فرمائیں غرض یہ کہ کوئی دقیقہ ان کے سمجھانے کا باقی نہ رکھا، مگر وہ کم بخت اپنے کفر اور جھٹلانے پر اڑے رہے اور گناہوں اور نافرمانیوں سے اپنی شرارت کے سبب سے باز نہ آئے غرض یہ کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم سے قارون تک جو لوگ طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے ظلم کے طور پر بےقصور ان کو ہلاک نہ کیا، کیونکہ ظلم کو اس نے اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرایا ہے اس لیے ان لوگوں کو سرکشی ہلاک کے درجہ کو پہنچ گئی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا۔
Top