Maarif-ul-Quran - Al-Hujuraat : 9
وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا١ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر طَآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے، کے اقْتَتَلُوْا : باہم لڑپڑیں فَاَصْلِحُوْا : توصلح کرادو تم بَيْنَهُمَا ۚ : ان دونوں کے درمیان فَاِنْۢ : پھر اگر بَغَتْ : زیادتی کرے اِحْدٰىهُمَا : ان دونوں میں سے ایک عَلَي الْاُخْرٰى : دوسرے پر فَقَاتِلُوا : تو تم لڑو الَّتِيْ : اس سے جو تَبْغِيْ : زیادتی کرتا ہے حَتّٰى : یہاں تک کہ تَفِيْٓءَ : رجوع کرے اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ : حکم الہی کی طرف فَاِنْ : پھر اگر جب فَآءَتْ : وہ رجوع کرلے فَاَصْلِحُوْا : تو صلح کرادو تم بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان بِالْعَدْلِ : عدل کے ساتھ وَاَقْسِطُوْا ۭ : اور تم انصاف کیا کرو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُقْسِطِيْنَ : انصاف کرنے والے
اور اگر دو فریق مسلمانوں کے آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں ملاپ کرا دو پھر اگر چڑھا چلا جائے ایک ان میں سے دوسرے پر تو تم سب لڑو اس چڑھائی والے سے یہاں تک کہ پھر آئے اللہ کے حکم پر پھر اگر پھر آیا تو ملاپ کرادو ان میں برابر اور انصاف کرو بیشک اللہ کو خوش آتے ہیں انصاف والے
خلاصہ تفسیر
اور اگر مسلمانوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان اصلاح کردو (یعنی جھگڑے کی بنیاد کو رفع کر کے لڑائی موقوف کرا دو) پھر اگر (اصلاح کی کوشش کے بعد بھی) ان میں کا ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے (اور لڑائی بند نہ کرے) تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع ہوجاوے (حکم خدا سے مراد لڑائی بند کرنا ہے) پھر اگر وہ (زیادتی کرنے والا فرقہ حکم خدا کی طرف) رجوع ہوجاوے (یعنی لڑائی بند کر دے) تو ان دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ اصلاح کردو (یعنی حدود شرعیہ کے موافق اس معاملہ کو طے کردو محض لڑائی بند کرنے پر اکتفا نہ کرو اگر صلح مصالحت نہ ہوئی تو پھر بھی لڑائی کا احتمال رہے گا) اور انصاف کا خیال رکھو (یعنی کسی نفسانی غرض کو غالب نہ ہونے دو) بیشک اللہ تعالیٰ انصاف والوں کو پسند کرتا ہے (اور باہمی اصلاح کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ) مسلمان تو سب (دینی اشتراک جو روحانی اور معنوی رشتہ ہے اس رشتہ سے ایک دوسرے کے) بھائی ہیں اس لئے اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کردیا کرو (تاکہ یہ اسلامی برادری قائم رہے) اور (اصلاح کے وقت) اللہ سے ڈرتے رہا کرو (یعنی حدود شرعیہ کی رعایت رکھا کرو) تاکہ تم پر رحمت کی جاوے۔

معارف و مسائل
ربط
سابقہ آیات میں رسول اللہ ﷺ کے حقوق اور آداب اور ایسے اعمال سے پرہیز کا بیان تھا جن سے آنحضرت ﷺ کو ایذا پہنچے، آگے عام معاشرت کے آداب و احکام ہیں جن میں اجتماعی اور انفرادی دونوں طرح کے آداب اور باہمی حقوق کا بیان ہے اور سب میں قدر مشترک ایذا رسانی سے اجتناب ہے۔
سبب نزول
ان آیات کے سبب نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان فرمائے ہیں جن میں خود مسلمانوں کے دو گروہوں میں باہم تصادم ہوا اور کوئی بعید نہیں کہ یہ سبھی واقعات کا مجموعہ سبب نزول ہوا ہو یا نزول کسی ایک واقعہ میں ہوا، دوسرے واقعات کو اس کے مطابق پا کر ان کو بھی سبب نزول میں شریک کردیا گیا، اس آیت کے اصل مخاطب وہ اولوالا مر اور ملوک ہیں جن کو قتال و جہاد کے وسائل حاصل ہیں (کذا قال ابوحیان فی البحر و اختارہ فی روح المعانی) اور بالواسطہ تمام مسلمان اس کے مخاطب ہیں کہ وہ اس معاملے میں اولوالامر کی اعانت کریں اور جہاں کوئی امام و امیر یا بادشاہ و رئیس نہیں وہاں حکم یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دونوں کو فہمائش کر کے ترک قتال پر آمادہ کیا جائے اور دونوں نہ مانیں تو دونوں لڑنے والے فرقوں سے الگ رہے نہ کسی کے خلاف کرے نہ موافقت، کذافی بیان القرآن۔
مسائل متعلقہ
مسلمانوں کے دو گروہوں کی باہمی لڑائی کی چند صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ دونوں جماعتیں امام المسلمین کے تحت ولایت ہیں یا دونوں نہیں، یا ایک ہے ایک نہیں، پہلی صورت میں عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ فہمائش کر کے ان کو باہمی جنگ سے روکیں، اگر فہمائش سے باز نہ آئیں تو امام المسلمین پر اصلاح کرنا واجب ہے اگر حکومت اسلامیہ کی مداخلت سے دونوں فریق جنگ سے باز آگئے تو قصاص و دیت کے احکام جاری ہوں گے اور باز نہ آئیں تو دونوں فریق کے ساتھ باغیوں کا سا معاملہ کیا جائے اور ایک باز آ گیا دوسرا ظلم وتعدی پر جما رہا تو دوسرا فریق باغی ہے اس کے ساتھ باغیوں کا معاملہ کیا جائے اور جس نے اطاعت قبول کرلی وہ فریق عادل کہلائے گا اور باغیوں کے احکام کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے اور مختصر جامع حکم یہ ہے کہ قبل قتال ان کے ہتھیار چھین لئے جاویں گے اور ان کو گرفتار کر کے توبہ کرنے کے قوت تک قید رکھیں گے اور عین قتال کی حالت میں اور قتال کے بعد ان کی ذریت کو غلام یا لونڈی نہ بنادیں گے اور ان کا مال مال غنیمت نہیں ہوگا البتہ توبہ کرنے تک اموال کو محبوس رکھا جائے گا توبہ کے بعد واپس دے دیا جائے گا، آیات مذکورہ میں جو یہ ارشاد ہوا ہے (آیت) فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا، یعنی اگر بغاوت کرنے والا فرقہ بغاوت اور قتال سے باز آجائے تو صرف جنگ بند کردینے پر اکتفا نہ کرو بلکہ اسباب جنگ اور باہمی شکایات کے ازالہ کی فکر کرو تاکہ دلوں سے بغض و عداوت نکل جاوے اور ہمیشہ کے لئے بھائی چارے کی فضا قائم ہوجائے اور چونکہ یہ لوگ امام المسلمین کے خلاف بھی جنگ کرچکے ہیں اس لئے ہوسکتا تھا کہ ان کے بارے میں پورا انصاف نہ ہو اس لئے قرآن نے تاکید فرمائی کہ دونوں فریق کے حقوق میں عدل و انصاف کی پابندی کی جائے (یہ سب تفصیل بیان القرآن سے لی گئی ہے اور اس میں ہدایہ کے حوالہ سے ہے)
مسئلہاگر مسلمان کی کوئی بڑی طاقتور جماعت امام المسلمین کی اطاعت سے نکل جائے تو امام المسلمین پر لازم ہے کہ اول ان کی شکایات سنے ان کو کوئی شبہ یا غلط فہمی پیش آئی ہے تو اس کو دور کرے اور اگر وہ اپنی مخالفت کی ایسی وجوہ پیش کریں جن کی بنا پر کسی امام و امیر کی مخالفت شرعاً جائز ہے یعنی جن سے خود امام المسلمین کا ظلم و جور ثابت ہو تو عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس جماعت کی مدد کریں تاکہ امام اپنے ظلم سے باز آجائے بشرطیکہ اس کے ظلم کا ثبوت یقینی بلا کسی اشتباہ کے ثابت ہوجائے (کذا قال ابن الہمام، مظہری) اور اگر کوئی ایسی واضح وجوہ اپنی بغاوت اور عدم اطاعت کی بیان نہ کرسکیں اور امام المسلمین کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوجائیں تو مسلمانوں کو ان سے قتال کرنا حلال ہے اور امام شافعی نے فرمایا کہ جب تک وہ خود قتال شروع نہ کردیں اس وقت تک مسلمانوں کو ان سے قتال کی ابتدا کرنا جائز نہیں (مظہری) یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس جماعت کا باغی اور ظالم ہونا بالکل یقینی اور واضح ہو اور اگر صورت ایسی ہے کہ دونوں فریق کوئی شرعی حجت رکھتے ہیں اور یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ ان میں کون باغی ہے کون عادل وہاں جس شخص کو کسی ایک کے عادل ہونے کا ظن غالب ہو وہ اس کی مدد کرسکتا ہے اور جس کو کسی جانب رجحان نہ ہو وہ دونوں سے الگ رہے جیسا کہ مشاجرات صحابہ کرام کے وقت جنگ جمل اور صفین میں پیش آیا۔
مشاجرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
امام ابوبکر بن العربی نے فرمایا کہ یہ آیت قتال بین المسلمین کی تمام صورتوں کو حاوی اور شامل ہے اس میں وہ صورت بھی داخل ہے جس میں دونوں فریق کسی حجت شرعی کے تحت جنگ کے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ صحابہ کرام کے مشاجرات اسی قسم میں داخل ہیں۔ قرطبی نے ابن عربی کا یہ قول نقل کر کے اس جگہ مشاجرات صحابہ جنگ جمل اور صفین وغیرہ کی اصل حقیقت بیان کی ہے اور مشاجرات صحابہ کے بارے میں بعد کے آنے والے مسلمانوں کے عمل کے متعلق ہدایات دی ہیں۔ احقر نے یہ سب مضامین احکام القرآن میں بزبان عربی اور بزبان اردو اپنے رسالہ مقام صحابہ میں تفصیل کے ساتھ لکھ دیئے ہیں یہاں اس کا خلاصہ جو تفسیر قرطبی ص 322 ج 16 کے حوالہ سے اس رسالہ میں دیا گیا ہے نقل کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
”یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی، یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات سے کف لسان کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر بہترین طریقے پر کریں کیونکہ صحابیت بڑی حرمت کی چیز ہے اور نبی ﷺ نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی کہ اللہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے“ اس کے علاوہ متعدد سندوں سے یہ حدیث ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت طلحہ کے بارے میں فرمایا۔
ان طلحة شھید یمشی علی وجہ الارض، یعنی طلحہ روئے زمین پر چلنے والے شہید ہیں۔
اب اگر حضرت علی کے خلاف حضرت طلحہ کا جنگ کے لئے نکلنا کھلا گناہ اور عصیان تھا تو اس جنگ میں مقتول ہو کر وہ ہرگز شہادت کا رتبہ حاصل نہ کرتے، اسی طرح حضرت طلحہ کا یہ عمل تاویل کی غلطی اور ادائے واجب میں کوتاہی قرار دیا جاسکتا تو بھی آپ کو شہادت کا مقام حاصل نہ ہوتا، کیونکہ شہادت تو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی شخص اطاعت ربانی میں قتل ہوا ہو۔ لہٰذا ان حضرات کے معاملہ کو اسی عقیدہ پر محمول کرنا ضروری ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔
اس بات کی دوسری دلیل وہ صحیح اور معروف و مشہور احادیث ہیں جو خود حضرت علی سے مروی ہیں اور جن میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”زبیر کا قاتل جہنم میں ہے“۔
نیز حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو“ جب یہ بات ہے تو ثابت ہوگیا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اس لڑائی کی وجہ سے عاصی اور گنہگار نہیں ہوئے، اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور حضرت طلحہ کو شہید نہ فرماتے اور حضرت زبیر کے قاتل کے بارے میں جہنم کی پیشین گوئی نہ کرتے۔ نیز ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہے جن کے جنتی ہونے کی شہادت تقریباً متواتر ہے۔
اسی طرح جو حضرات صحابہ ان جنگوں میں کنارہ کش رہے، انہیں بھی تاویل میں خطا کار نہیں کہا جاسکتا، بلکہ ان کا طرز عمل بھی اس لحاظ سے درست تھا کہ اللہ نے ان کو اجتہاد میں اسی رائے پر قائم رکھا جب یہ بات ہے تو اس وجہ سے ان حضرات پر لعن طعن کرنا ان سے برات کا اظہار کرنا اور انہیں فاسق قرار دینا، ان کے فضائل و مجاہدات اور ان عظیم دینی مقامات کو کالعدم کردینا کسی طرح درست نہیں، بعض علماء سے پوچھا گیا کہ اس خون کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو صحابہ کرام کے باہمی مشاجرات میں بہایا گیا تو انہوں نے جواب میں یہ آیت پڑھ دی کہ (آیت) تلک امتہ قد خلت لھا ماکسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون، یہ ایک امت تھی جو گزر گئی، اس کے اعمال اس لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔
کسی اور بزرگ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ”ایسے خون ہیں کہ اللہ نے میرے ہاتھوں کو ان میں (رنگنے سے) بچایا، اب میں اپنی زبان کو ان سے آلودہ نہیں کروں گا“ مطلب یہی تھا کہ میں کسی ایک فریق کو کسی ایک معاملے میں یقینی طور پر خطا کار ٹھہرانے کی غلطی میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا۔
علامہ ابن فورک فرماتے ہیں۔
”ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئے ان کی مثال ایسی جیسے حضرت یوسف ؑ اور ان کے بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کی، وہ حضرات آپس کے ان اختلافات کے باوجود ولایت اور نبوت کی حدود سے خارج نہیں ہوئے بالکل یہی معاملہ صحابہ کے درمیان پیش آنے والے واقعات کا بھی ہے“۔
اور حضرت محاسبی فرماتے ہیں کہ
”جہاں تک اس خونریزی کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ اس میں خود صحابہ کے درمیان اختلاف تھا“ اور حضرت حسن بصری سے صحابہ کے باہمی قتال کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ
”ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہ موجود تھے اور ہم غائب وہ پورے حالات کو جانتے تھے اور ہم نہیں جانتے، جس معاملہ پر تمام صحابہ کا اتفاق ہے ہم اس میں ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس معاملہ میں ان کے درمیان اختلاف ہے اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں“۔
حضرت محاسبی فرماتے ہیں کہ ہم بھی وہی بات کہتے ہیں جو حسن بصری نے فرمائی ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جن چیزوں میں دخل دیا ان سے وہ ہم سے کہیں بہتر طریقے پر واقف تھے لہٰذا ہمارا کام یہی ہے کہ جس پر وہ سب حضرات متفق ہوں اس کی پیروی کریں اور جس میں ان کا اختلاف ہو اس میں خاموشی اختیار کریں اور اپنی طرف سے کوئی نئی رائے پیدا نہ کریں ہمیں یقین ہے کہ ان سب نے اجتہاد سے کام لیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہی تھی اس لئے کہ دین کے معاملہ میں وہ سب حضرات شک و شبہ سے بالا تر ہیں۔
Top