Maarif-ul-Quran - Al-Hashr : 16
كَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ١ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
كَمَثَلِ : حال جیسا الشَّيْطٰنِ : شیطان اِذْ : جب قَالَ : اس نے کہا لِلْاِنْسَانِ : انسان سے اكْفُرْ ۚ : تو کفر اختیار کر فَلَمَّا : تو جب كَفَرَ : اس نے کفر کیا قَالَ : اس نے کہا اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : لا تعلق مِّنْكَ : تجھ سے اِنِّىْٓ : تحقیق میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ : رب تمام جہانوں کا
جیسے قصہ شیطان کا جب کہے انسان کو تو منکر ہو پھر جب وہ منکر ہوگیا کہے میں الگ ہوں تجھ سے میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو رب سارے جہان کا
(آیت) كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ الایة یہ دوسری مثال ان منافقین کی ہے جنہوں نے بنو نضیر کو جلا وطنی کا حکم نہ ماننے اور رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ پر جنگ کرنے کے لئے ابھارا اور ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا، مگر جب مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا تو کوئی منافق امداد کو نہ پہنچا ان کی مثال قرآن کریم نے شیطان کے ایک واقعہ سے دی ہے کہ شیطان نے انسان کو کفر پر آمادہ کیا اور اس سے طرح طرح کے وعدے کئے، مگر جب وہ کفر میں مبتلا ہوگیا تو سب سے مکر گیا۔
شیطان کے ایسے واقعات خدا جانے کتنے ہوئے ہوں گے، ان میں سے ایک واقعہ تو خود قرآن کریم میں منصوص ہے جس کا بیان سورة انفال کی ان آیات میں آیا ہے (آیت) (واذ زین لھم الشیطن اعمالھم وقال لاغالب لکم الیوم من الناس انی جار لکم فلما ترآءت الفئتن نکص علے ٰ عقبیہ وقال انی بری منکم الآیة) ، یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے جس میں شیطان نے بطور وسوسہ کے یا بشکل انسانی سامنے آ کر مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے مقابلہ پر ابھارا اور اپنی مدد کا یقین دلایا، مگر جب مسلمانوں سے مقابلہ ہوا تو مدد کرنے سے صاف انکار کردیا، اس واقعہ کی پوری تشریح معارف القرآن جلد چہارم صفحہ 256 سے صفحہ 258 تک تفصیل کے ساتھ آچکی ہے۔
اگر آیت مذکورہ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے تو یہ ارشاد کہ شیطان انسان سے کفر کرنے کو کہتا ہے اور جب وہ کرلیتا ہے تو اس سے بری ہو کر الگ ہوجاتا ہے، اس پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس واقعہ پر بظاہر شیطان نے ان کو کفر کرنے کے لئے نہیں کہا، کافر تو وہ پہلے ہی سے تھے، شیطان نے تو ان کو مقابلہ پر جمع کرنے کے لئے کہا تھا، جواب ظاہر ہے کہ کفر پر جمے رہنے اور رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ پر قتال کرنے کو کہنا بھی اسی حکم میں ہے کہ ان کو کفر کرنے کے لئے کہا جائے۔
اور تفسیر مظہری و قرطبی و ابن کثیر وغیرہ میں اس جگہ شیطان کی اس مثال کے واقعات بنی اسرائیل کے متعدد راہبوں اور عبادت گزاروں کو شیطان کے بہکا کر کفر تک پہنچا دینے کے متعلق نقل کئے ہیں، مثلاً بنی اسرائیل کا ایک راہب عبادت گزار جو اپنے صومعہ میں ہمیشہ عبادت میں مشغول رہتا اور روزے اس طرح رکھتا تھا کہ دس دن میں صرف ایک مرتبہ افطار کرتا تھا، ستر سال اس کے اسی حال میں گزرے، شیطان اس کے پیچھے پڑا اور اپنے سب سے زیادہ مکار، ہوشیار شیطان کو اس کے پاس بصورت راہب عبادت گزار بنا کر بھیجا جس نے اس کے پاس جا کر اس راہب سے بھی زیادہ عبادت گزاری کا ثبوت دیا یہاں تک کہ راہب کو اس پر اعتماد ہوگیا۔
بالآ خر مصنوعی راہب شیطان اس بات میں کامیاب ہوگیا کہ اس راہب کو کچھ دعائیں ایسی سکھلائیں جس سے بیماروں کو شفا ہوجائے، پھر اس نے بہت سے لوگوں کو اپنے اثر سے بیمار کر کے ان کو خود ہی اس راہب کا پتہ دیا جب یہ راہب ان پر دعا پڑھتا تو یہ شیطان اپنا اثر اس سے ہٹا دیتا، وہ شفایات ہوجاتا تھا اور عرصہ دراز تک یہ سلسلہ جاری رکھنے کے بعد اس نے ایک اسرائیلی سردار کی حسین لڑکی پر اپنا یہ عمل کیا اور اس کو بھی راہب کے پاس جانے کا مشورہ دیا، یہاں تک کہ اس کو راہب کے صومعہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگیا اور رفتہ رفتہ اس کو اس لڑکی کے ساتھ زنا میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہوا جس کے نتیجہ میں اس کو حمل ہوگیا، تو رسوائی سے بچنے کے لئے اس کو قتل کرنے کا مشورہ دیا، قتل کرنے کے بعد شیطان ہی نے سب کو واقعہ قتل وغیرہ بتلا کر راہب کے خلاف کھڑا کردیا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کا صومعہ ڈھا دیا اور اس کو قتل کر کے سولی دینے کا فیصلہ کیا، اس وقت شیطان اس کے پاس پھر پہنچا کہ اب تو تیری جان بچنے کی کوئی صورت نہیں، ہاں اگر تو مجھے سجدہ کرلے تو میں تجھے بچا سکتا ہوں، راہب سب کچھ گناہ پہلے کرچکا تھا، کفر کا راستہ ہموار ہوچکا تھا اس نے سجدہ بھی کرلیا، اس وقت شیطان نے صاف کہہ دیا کہ تو میرے قبضہ میں نہ آتا تھا میں نے یہ سب مکر تیرے مبتلائے کفر کرنے کے لئے کئے تھے، اب میں تیری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ یہ واقعہ تفسیر قرطبی اور مظہری میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
Top