Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 142
وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً١ۚ وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ
وَوٰعَدْنَا
: اور ہم نے وعدہ کیا
مُوْسٰي
: موسیٰ
ثَلٰثِيْنَ
: تیس
لَيْلَةً
: رات
وَّاَتْمَمْنٰهَا
: اور اس کو ہم نے پورا کیا
بِعَشْرٍ
: دس سے
فَتَمَّ
: تو پوری ہوئی
مِيْقَاتُ
: مدت
رَبِّهٖٓ
: اس کا رب
اَرْبَعِيْنَ
: چالیس
لَيْلَةً
: رات
وَقَالَ
: اور کہا
مُوْسٰي
: موسیٰ
لِاَخِيْهِ
: اپنے بھائی سے
هٰرُوْنَ
: ہارون
اخْلُفْنِيْ
: میرا خلیفہ (نائب) رہ
فِيْ قَوْمِيْ
: میری قوم میں
وَاَصْلِحْ
: اور اصلاح کرنا
وَلَا تَتَّبِعْ
: اور نہ پیروی کرنا
سَبِيْلَ
: راستہ
الْمُفْسِدِيْنَ
: مفسد (جمع)
اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس رات کو اور پورا کیا ان کو اور دس سے پس پوری ہوگئی مدت تیرے رب کی چالیس راتیں اور کہا موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہ میرا خلیفہ رہ میری قوم میں اور اصلاح کرتے رہنا اور مت چلنا مفسدوں کی راہ۔
خلاصہ تفسیر
اور (جب بنی اسرائیل سب پریشانیوں سے مطمئن ہوگئے تو موسیٰ ؑ سے درخواست کی کہ اب ہم کو کوئی شریعت ملے تو اس پر اطمینان کے ساتھ عمل کریں، موسیٰ ؑ نے حق تعالیٰ سے درخواست کی، حق تعالیٰ اس کا قصہ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے موسیٰ ؑ سے تیس را توں کا وعدہ کیا (کہ طور پر آکر اعتکاف کریں تو آپ کو شریعت اور کتاب تورات دی جائے گی) اور دس راتیں مزید ان تیس را توں کا تتمہ بنادیا (یعنی تورات دے کر ان میں دس راتیں عبادت کے لئے اور بڑھا دیں جس کی وجہ سورة بقرہ میں مذکور ہوچکی ہے) اس طرح ان کے پروردگار کا (مقرر کیا ہوا) وقت (سب مل کر) پوری چالیس راتیں ہوگیا اور موسیٰ ؑ کوہ طور آنے لگے تو چلتے وقت) اپنے بھائی ہارون ؑ سے کہہ دیا تھا کہ میرے بعد ان لوگوں کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بدنظم لوگوں کی رائے پر عمل نہ کرنا۔
معارف و مسائل
اس آیت میں موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کا وہ واقعہ مذکور ہے جو غرق فرعون اور بنی اسرائیل کے مطمئن ہونے کے بعد پیش آیا کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑ سے درخواست کی کہ اب ہم مطمئن ہیں، اب ہمیں کوئی کتاب اور شریعت ملے تو ہم بےفکری کے ساتھ اس پر عمل کریں، حضرت موسیٰ ؑ نے حق تعالیٰ سے دعا کی۔
اس میں لفظ وٰعَدْنَا وعدہ سے مشتق ہے، اور وعدہ کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کو نفع پہنچانے سے پہلے اس کا اظہار کردینا کہ ہم تمہارے لئے فلاں کام کریں گے۔
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ پر اپنا کلام نازل کرنے کا وعدہ فرمایا اور اس کے لئے یہ شرط لگائی کہ تیس راتیں کوہ طور پر اعتکاف اور ذکر اللہ میں گزار دیں اور پھر ان تیس پر اور دس راتوں کا اضافہ کر کے چالیس کردیا۔
لفظ وٰعَدْنَا کے اصلی معنی دو طرف سے وعدے اور معاہدے کے آتے ہیں، یہاں بھی حضرت حق جل شانہ کی طرف سے عطاء تورات کا وعدہ تھا اور موسیٰ ؑ کی طرف سے تیس چالیس راتوں کے اعتکاف کا، اس لئے بجائے وَعَدنَا کے وٰعَدْنَا فرمایا۔
اس آیت میں چند مسائل اور احکام قابل غور ہیں
اول یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہی یہ تھا کہ اعتکاف چالیس راتوں کا کرایا جائے تو پہلے تیس اور بعد میں دس کا اضافہ کرکے چالیس کرنے میں کیا حکمت تھی، پہلے ہی چالیس راتوں کے اعتکاف کا حکم دے دیا جاتا تو کیا حرج تھا، سو اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا احاطہ تو کون کرسکتا ہے، بعض حکمتیں علماء نے بیان کی ہیں۔
تفسیر روح البیان میں ہے کہ اس میں ایک حکمت تدریج اور آہستگی کی ہے کہ کوئی کام کسی کے ذمہ لگایا جائے تو اول ہی زیادہ مقدار کام کی اس پر نہ ڈالی جائے تاکہ وہ آسانی سے برداشت کرے، پھر مزید کام دیا جائے۔
اور تفسیر قرطبی میں ہے کہ اس طرز میں حکام اور اولوالامر کو اس کی تعلیم دینا ہے کہ اگر کسی کو کوئی کام ایک معین وقت میں پورا کرنے کا حکم دیا جائے اور اس معین میعاد میں وہ پورا نہ کرسکے تو اس کو مزید مہلت دی جائے، جیسا کہ موسیٰ ؑ کے واقعہ میں پیش آیا کہ تیس راتیں پوری کرنے کے بعد جس کیفیت کا حاصل ہونا مطلوب تھا وہ پوری نہ ہوئی اس لئے مزید دس راتوں کا اضافہ کیا گیا کیونکہ ان دس راتوں کے اضافہ کا جو واقعہ مفسرین نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ تیس راتوں کے اعتکاف میں موسیٰ ؑ نے حسب قاعدہ تیس روزے بھی مسلسل رکھے بیچ میں افطار نہیں کیا، تیسواں روزہ پورا کرنے کے بعد افطار کرکے مقررہ مقام طور پر حاضر ہوئے تو حق تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ روزہ دار کے منہ سے جو ایک خاص قسم کی رائحہ معدہ کی تبخیر سے پیدا ہوجاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، آپ نے افطار کے بعد مسواک کر کے اس رائحہ کو زائل کردیا، اس لئے مزید دس روزے اور رکھیے تاکہ وہ رائحہ پھر پیدا ہوجائے۔
اور بعض روایات تفسیر میں جو اس جگہ یہ منقول ہے کہ تیسویں روزہ کے بعد موسیٰ ؑ نے مسواک کرلی تھی جس کے ذریعہ وہ رائحہ صوم زائل ہوگیا تھا، اس سے اس بات پر استدلال نہیں ہوسکتا کہ روزہ دار کے لئے مسواک کرنا مکروہ یا ممنوع ہے کیونکہ اول تو اس روایت کی کوئی سند مذکور نہیں، دوسرے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حکم حضرت موسیٰ ؑ کی ذات سے متعلق ہو عام لوگوں کے لئے نہ ہو یا شریعت موسوی میں ایسا ہی حکم سب کے لئے ہو کہ روزہ کی حالت میں مسواک نہ کی جائے، لیکن شریعت محمد یہ میں تو بحالت روزہ مسواک کرنے کا معمول حدیث سے ثابت ہے جس کو بیہقی نے بروایت عائشہ ؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، خیر خصائل الصائم السواک یعنی روزہ دار کا بہترین عمل مسواک ہے۔ اس روایت کو جامع صغیر میں نقل کر کے حسن فرمایا ہے۔
فائدہ
اس روایت پر ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ جب تلاش خضر میں سفر کر رہے تھے تو آدھے دن بھوک پر صبر نہ ہوسکا اور اپنے ساتھی سے فرمانے لگے اٰتِنَا غَدَاۗءَنَا ۡ لَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا یعنی ہمارا ناشتہ لاؤ کیونکہ اس سفر نے ہم کو تکان میں ڈال دیا اور کوہ طور پر مسلسل تیس روزے اس طرح رکھے کہ رات کو بھی افطار نہیں، یہ عجیب بات ہے ؟
تفسیر روح البیان میں ہے کہ یہ فرق ان دونوں سفروں کی نوعیت کے سبب سے تھا، پہلا سفر مخلوق کے ساتھ مخلوق کی تلاش میں تھا، اور کوہ طور کا سفر مخلوق سے علیحدہ ہو کر ایک ذات حق سبحانہ کی جستجو میں، اس کا یہی اثر ہونا تھا کہ بشری تقاضے نہایت مضمحل ہوگئے، کھانے پینے کی حاجت اتنی گھٹ گئی کہ تیس روز تک کوئی تکلیف محسوس نہیں فرمائی۔
عبادات میں قمری حساب معتبر ہے، دنیوی معاملات میں شمسی حساب کی گنجا ئش ہے
ایک اور مسئلہ اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) کے شرائع میں تاریخ کا حساب رات سے ہوتا ہے، کیونکہ اس آیت میں بھی تیس دن کے بجائے تیس راتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ شرائع انبیاء میں مہینے قمری معتبر ہیں اور قمری مہینہ کا شروع چاند دیکھنے سے ہوتا ہے، وہ رات ہی میں ہوسکتا ہے اس لئے مہینہ رات سے شروع ہوتا ہے پھر اس کی ہر تاریخ غروب آفتاب سے شمار ہوتی ہے، جتنے آسمانی مذہب ہیں ان سب کا حساب اسی طرح قمری مہینوں سے اور شروع تاریخ غروب آفتاب سے اعتبار کی جاتی ہے۔
قرطبی نے بحوالہ ابن عربی نقل کیا ہے کہ حساب الشمس للمنافع و حساب القمر للمناسک یعنی شمسی حساب دنیوی منافع کے لئے ہے اور قمری حساب اداء عبادات کے لئے۔
اور یہ تیس راتیں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق ماہ ذی القعدہ کی راتیں تھیں اور پھر ان پر دس راتیں ذی الحجہ کی بڑھائی گئیں، اس سے معلوم ہوا کہ تورات کا عطیہ حضرت موسیٰ ؑ کو یوم النحر (یعنی عیدالاضحی) کے دن ملا (قرطبی)
ایک مسئلہ اصلاح نفسی میں چالیس دن رات کو خاص دخل ہے۔
اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چالیس راتوں کو باطنی حالات کی اصلاح میں کوئی خاص دخل ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص چالیس روز اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے قلب سے حکمت کے چشمے جاری فرمادیتے ہیں۔ (روح البیان)
انسان کو اپنے سب کاموں میں تدریج اور آہستگی کی تعلیم
اس آیت سے ثابت ہوا کہ اہم کاموں کے لئے ایک خاص میعاد مقرر کرنا، اور سہولت و تدریج سے انجام دینا سنت الہیہ ہے، عجلت اور جلد بازی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔
سب سے پہلے خود حق تعالیٰ نے اپنے کام یعنی پیدائش عالم کے لئے ایک میعاد چھ روز کی متعین فرماکر یہ اصول بتلادیا ہے، حالانکہ حق تعالیٰ کو آسمان زمین اور سارے عالم کو پیدا کرنے کے لئے ایک منٹ کی بھی ضرورت نہیں جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کے لئے فرمادیں کہ ہوجا وہ فورا ہوجاتی ہے مگر اس خاص طرز عمل میں مخلوق کو یہ ہدایت دینا تھی کہ اپنے کاموں کو غور وفکر اور تدریج کے ساتھ انجام دیا کریں، اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ کو تورات عطا فرمائی تو اس کے لئے بھی ایک میعاد مقرر فرمائی اس میں اسی اصول کی تعلیم ہے۔ (قرطبی)
اور یہی وہ اصول تھا جس کو نظر انداز کردینا بنی اسرائیل کی گمراہی کا سبب بنا کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ سابق حکم خداوندی کے مطابق اپنی قوم سے یہ کہہ کر گئے تھے کہ تیس روز کے لئے جارہا ہوں یہاں جب دس روز کی مدت بڑھ گئی تو اپنی جلدبازی کے سبب لگے یہ کہنے کہ موسیٰ ؑ تو کہیں گم ہوگئے، اب ہمیں کوئی دوسرا پشیوا بنالینا چاہئے۔
اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ سامری کے دام میں پھنس کر " گوسالہ " پرستی شروع کردی، اگر غور و فکر اور اپنے کاموں میں تدریج و تامل کے عادی ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی (قرطبی)
آیت کے دوسرے جملہ میں ارشاد ہے وَقَالَ مُوْسٰي لِاَخِيْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ ، اس جملہ سے بھی چند مسائل اور احکام نکلتے ہیں۔
ضرورت کے وقت ناظم امور کو اپنا قائم مقام تجویز کرنا۔
اول یہ کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق کوہ طور پر جاکر اعتکاف کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ساتھی حضرت ہارون ؑ سے فرمایا اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ یعنی میرے پیچھے آپ میری قوم میں میری قائم مقامی کے فرائض انجام دیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص کسی کام کا ذمہ دار ہو وہ اگر کسی ضرورت سے کہیں جائے تو اس پر لازم ہے کہ اس کام کا انتظام کر کے جائے۔
نیز یہ ثابت ہوا کہ حکومت کے ذمہ دار حضرات جب کہیں سفر کریں تو اپنا قائم مقام اور خلیفہ مقرر کر کے جائے۔
رسول کریم ﷺ کی عام عادت یہی تھی کہ جب کبھی مدینہ سے باہر جانا ہوا تو کسی شخص کو خلیفہ بنا کر جاتے تھے، ایک مرتبہ حضرت علی مرتضی کو خلیفہ بنایا، ایک مرتبہ عبداللہ بن ام مکتوم کو، اسی طرح مختلف اوقات میں مختلف صحابہ کو مدینہ میں خلیفہ بنا کر باہر تشریف لے گئے۔ (قرطبی)
موسیٰ ؑ نے ہارون ؑ کو خلیفہ بنانے کے وقت ان کو چند ہدایات دیں، اس سے معلوم ہوا کہ جس کو قائم مقام بنایا جائے اس کی سہولت کار کے لئے ضروری ہدایات دے کر جائے، ان ہدایات میں پہلی ہدایت یہ ہے کہ اَصْلِحْ ، اس میں اَصْلِحْ کا مفعول ذکر نہیں فرمایا کہ کس کی اصلاح کرو، اس سے اشارہ اس عموم کی طرف ہے کہ اپنی بھی اصلاح کرو اور اپنی قوم کی بھی، یعنی جب ان میں کوئی بات فساد کی محسوس کرو تو ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرو، دوسری ہدایت یہ دی کہ لَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ یعنی فساد کرنے والوں کے راستہ کا اتباع نہ کرو، ظاہر ہے کہ ہارون ؑ اللہ کے نبی ہیں، ان سے فساد میں مبتلا ہونے کا تو خطرہ نہ تھا اس لئے اس ہدایت کا مطلب یہ تھا کہ مفسدین کی مدد یا ہمت افزائی کا کوئی کام نہ کرو۔
چنانچہ حضرت ہارون ؑ نے جب قوم کو دیکھا کہ سامری کے پیچھے چلنے لگے یہاں تک کہ اس کے کہنے سے گوسالہ پرستی شروع کردی تو قوم کو اس بےہودگی سے روکا اور سامری کو ڈانٹا۔ پھر حضرت موسیٰ ؑ نے واپسی کے بعد جب یہ خیال کیا کہ ہارون ؑ نے میرے پیچھے اپنے فرض ادا کرنے میں کوتاہی کی تو ان سے مواخذہ فرمایا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے اس واقعہ سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو بد نظمی اور بےفکری ہی کو سب سے بڑی بزرگی سمجھتے ہیں۔
Top