Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 142
وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً١ۚ وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ
وَوٰعَدْنَا : اور ہم نے وعدہ کیا مُوْسٰي : موسیٰ ثَلٰثِيْنَ : تیس لَيْلَةً : رات وَّاَتْمَمْنٰهَا : اور اس کو ہم نے پورا کیا بِعَشْرٍ : دس سے فَتَمَّ : تو پوری ہوئی مِيْقَاتُ : مدت رَبِّهٖٓ : اس کا رب اَرْبَعِيْنَ : چالیس لَيْلَةً : رات وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَخِيْهِ : اپنے بھائی سے هٰرُوْنَ : ہارون اخْلُفْنِيْ : میرا خلیفہ (نائب) رہ فِيْ قَوْمِيْ : میری قوم میں وَاَصْلِحْ : اور اصلاح کرنا وَلَا تَتَّبِعْ : اور نہ پیروی کرنا سَبِيْلَ : راستہ الْمُفْسِدِيْنَ : مفسد (جمع)
اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس راتوں کے ذریعہ ان کی تکمیل کردی، اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم میرے بعد میری قوم میں میرے خلیفہ بن کر رہنا اور اصلاح کرتے رہنا اور مفسدین کی راہ کا اتباع نہ کرنا
(1) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے چند طرق سے ابن عباس سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ووعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃ واتممنھا بعشر “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ذوالقعدہ اور ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے سلیمان تیمی (رح) سے روایت کیا کہ حضرمی نے یہ گمان کیا کہ تیس راتیں جن کا موسیٰ سے وعدہ کیا گیا تھا وہ ذوالقعدہ کی ہیں اور وہ دس راتیں جن سے اللہ تعالیٰ نے چالیس راتیں پوری فرمائیں وہ ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں۔ (3) امام ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ سال میں کوئی عمل بھی اس طرح سے افضل نہیں جو ذی الحجہ کے دس دنوں میں کیا جائے اور یہی وہ دس راتیں ہیں کہ جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کے لئے میعاد مکمل فرمائی۔ (4) امام ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ووعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃ واتممنھا بعشر “ یعنی ذوالقعدہ (کا پورا مہینہ) اور ذی الحجہ کے دس دن مراد ہیں موسیٰ نے اپنے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑا اور ان پر ہارون کو خلیفہ بنایا اور (خود) طور پر چالیس راتیں ٹھہرے رہے اس وقت آپ پر تورات نازل کی گئی جو تختیوں میں تھی رب کریم نے ان کو اپنے قریب کیا سرگوشی کرتے ہوئے اور ان سے کلام فرمایا اور انہوں نے قلم چلنے کی آواز کو سنا اور ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے ان چالیس راتوں میں کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ طور سے نیچے اتر آئے۔ (5) امام عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ووعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃ “ یعنی ذوالقعدہ (کا مہینہ) ” واتممناھا بعشر “ یعنی ذی الحجہ کی دس راتیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ (6) امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ووعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃ واتممنھا بعشر “ کے بارے میں فرمایا کہ موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا ہے کہ میں اس سے ملاقات کروں اور میں ہاروں کو تمہارے اندر خلیفہ بناتا ہوں۔ جب موسیٰ نے اپنے رب کی طرف چلے گئے تو اللہ تعالیٰ نے دس (راتوں) کا اور اضافہ کردیا آپ کی قوم کی آزمائش ان دس دنوں میں تھی جو اللہ تعالیٰ نے زائد کر دئیے جب تیس راتیں گزر گئیں تو سامری نے جبرئیل کو دیکھ لیا۔ اور ان کے گھوڑے کے پاؤں کے نیچے کی مٹی سے ایک مٹھی بھر لی۔ اور کہا جب تیس راتیں گزر گئیں اے بنی اسرائیل تمہارے پاس فرعون والوں کے زیورات ہیں اور وہ تم پر حرام ہیں لے آؤ جو کچھ تمہارے پاس ہے تاکہ ہم اس کو جلا دیں گے۔ وہ لوگ لے آئے جو کچھ زیورات ان کے پاس تھے۔ ساحری نے آگ جلائی پھر ان زیوروں کو آگ میں ڈال دیا جب زیور پگھل گئے تو یہ مٹھی بھر مٹی بھی آگ میں ڈال دی تو وہ ایک بچھڑے کا جسم بن گیا جس کی آواز تھی اس نے ایک دفعہ آواز نکالی پھر دوسری مرتبہ نہیں نکالی ساحری نے کہا موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے رن کی تلاش کرنے گئے ہیں حالانکہ یہ موسیٰ کا خدا ہے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ھذا الھکم والہ موسیٰ فنسی “ (طہ آیت 88) (یہ ہے تمہارا خدا اور موسیٰ کا خدا پس موسیٰ بھول گئے) کہنے لگے وہ اپنے رب کی تلاش کرنے کے لئے چلے اور اسی میں بہک گئے اور وہ تو یہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا اور وہ ان سے سرگوشی کر رہے تھے۔ فرمایا لفظ آیت ” قد فتنا قومک من بعدک واضلہم السامری (85) فرجع موسیٰ الی قومہ غضبان اسفا “ یعنی غمگین ہوتے ہوئے (موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس لوٹے) (7) امام احمد نے زھد میں وھب ؓ سے روایت کی ہے کہ رب تبارک و تعالیٰ سے فرمایا اپنی قوم کو حکم کر کہ وہ لوگ میری طرف رجوع کریں اور وہ لوگ مجھ کو پکاریں دس دنوں میں۔ یعنی ذی الحجہ کے دس دن۔ جب دسواں دن ہو تو ان کو چاہئے کہ میری طرف نکلیں میں ان کو معاف کر دوں گا وھب نے فرمایا (یہی) وہ دن ہے۔ جس کو یہود نے تلاش کیا تھا مگر وہ اس سے خطا کر گئے اور کوئی عدد صحیح نہیں ہے عرب کے عدد سے بڑھ کر۔ (8) امام دیلمی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس حدیث کو رفع کیا ہے۔ جب موسیٰ آئے اپنے رب کے پاس اور تیس راتوں کے بعد ان سے بات فرمانے کرنے کا ارادہ فرمایا اور انہوں نے رات اور ان (برابر) روزہ رکھا۔ تو انہوں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ وہ اس حال میں اپنے رب سے کم کلام ہوں کہ منہ کی بو ایسی ہو جیسے روزہ دار کی ہوتی ہے۔ انہوں نے زمین کی ایک بوٹی منہ میں ڈالی اور اسے خوب چبایا ان کے رب نے ان سے فرمایا تو نے روزہ کیوں چھوڑا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ حقیقی کیفیت کو جانتا تھا۔ موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب میں نے تیرے ساتھ کلام کرنے کو ناپسند کیا مگر اس حالت میں کہ میرے منہ میں اچھی خوشبو ہو (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) لوٹ جا ! اور (مزید) دس دن کے روزے رکھو۔ پھر میرے پاس لوٹ آنا۔ موسیٰ نے ایسا ہی کیا جو ان کے رب نے ان کو حکم دیا تھا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا تو جو فرماتا تھا فرما دیا۔ اما قولہ تعالیٰ : ولما جاء موسیٰ لیمقاتنا وکلمہ ربہ : (9) امام بزار ابن ابی حاتم، ابو نعیم نے حلیہ میں اور بیہقی نے الاسماء والصفاف میں جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کلام فرمایا تو ان سے کلام فرمایا یہ کلام اس کلام کے علاوہ تھا جو اس دن فرمایا تھا جس دن ان کو بلایا تھا۔ موسیٰ نے رب تعالیٰ سے فرمایا اے میرے رب کیا یہ آپ کا وہی کلام ہے کہ جس کے ساتھ آپ نے مجھ سے کلام فرمایا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ میں نے تجھ سے بات کی ہے دس ہزار زبانوں کی قوت کے ساتھ اور میرے پاس سب زبانوں کی قوت ہے اور اس سے بھی زیادہ قوت ہے جب موسیٰ بنی اسرائیل کی طرف دوبارہ لوٹے تو انہوں نے کہا اے موسیٰ رحمن کے کلام کی صفت بیان کیجئے۔ فرمایا تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کڑک اور بجلی کی آواز کی طرف جو انتہائی شیریں رس گھولنے والے انداز میں آتی ہے تم نے اس کو سنا ہوا ہے پس وہ آواز رحمن کے کلام کے قریب قریب ہے۔ اور اس جیسی نہیں ہے۔ (10) امام عبد اللہ بن احمد نے زوائد الزھد میں عطاء بن سائب ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ کا ایک قبہ تھا۔ اس کی لمبائی چھ سو ذراع تھی۔ اس میں آپ اپنے رب سے ہم کلام ہوا کرتے تھے۔ (11) امام حکیم ترمذی نے نوارد الاصول میں کعب ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے بات کی تو فرمایا اے میرے رب کیا آپ کا کلام اس طرح ہے ؟ فرمایا اے موسیٰ ! بلاشبہ میں تجھ سے بات کرتا رہا ہوں دس ہزار زبانوں کی قوت کے ساتھ اور مجھے سب زبانوں کی قوت حاصل ہے اگر میں تجھ سے اپنے کلام کے حقیقی انداز کے ساتھ بات کروں تو تیرے لئے کچھ بھی نہ ہوگا۔ (یعنی تجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آئے گا) (12) امام عبد الرزاق، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں کعب ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے بات کی تو سب زبانوں کے واسطہ سے آپ نے گفتگو فرمائی یعنی موسیٰ کی گفتگو سے پہلے تو انہوں نے کہنا شروع کیا اے میرے رب میں نہیں سمجھ رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے دوسری زبانوں کے ساتھ کلام فرمایا ان کی آواز کی طرف موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب اسی طرح آپ کا کلام ہے۔ فرمایا نہیں اگر تو میرے کلام کو حقیقی حالت پر سن لیا تو تیرے لئے کچھ بھی نہ ہوگا۔ (یعنی تجھے کچھ بھی سمجھ نہ آئے گا) موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب ! کیا تیری مخلوق میں کوئی ایسی چیز ہے جو آپ کے کلام کی طرح ہو۔ فرمایا نہیں۔ اور سب سے زیادہ قریب میری مخلوق میں سے جو میرے کلام کی مشابہت رکھتی ہے وہ بجلی کی گرج کی آواز ہے جو لوگوں نے سن رکھی ہے۔ (13) امام ابن جریر اور ابن منذر نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا گیا۔ تیرے رب کا کلام کس چیز سے مشابہ ہے ان کی مخلوق سے میں جن کو پیدا فرمایا موسیٰ نے فرمایا کہ ایسی گرج جو ساکن ہو۔ (14) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح بھی قرار دیا) ابو الحویرث عبد الرحمن بن معاویہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے اسی قدر گفتگو فرمائی جتنی آپ سمجھنے کی طاقت رکھتے تھے اگر اللہ تعالیٰ اپنے سارے کلام کے ساتھ بات کرتے تو کوئی چیز بھی آپ نہ سمجھ سکتے۔ موسیٰ چالیس راتوں تک ٹھہرے اور کوئی بھی آپ کو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتا تھا۔ جو دیکھتا تو وہ رب العالمین کے نور کی تاب نہ لاکر مرجاتا۔ رب تعالیٰ کی موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلامی (15) امام دیلمی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے مرفوع حدیث میں بیان فرمایا جب میرے بھائی موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے ہم کلام ہونے کے لئے نکلے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ ایک ہزار اور دو سو کلمات کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ سب سے پہلے بربری زبان میں بات فرمائی اور یہ بھی فرمایا اسے موسیٰ اور اپنی ذات کو ان کلمات کے ساتھ تعبیر کرتا ہوں یعنی میں اللہ ہوں (جو) سب سے بڑا ہوں موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب آپ نے دنیا اپنے دشمنوں کو دی اور اپنے دوستوں سے اس کو روک دیا اس میں کیا حکمت ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے اپنے دشمنوں کو دنیا دی ہے، اور اس کو روکا اپنے دوستوں سے تاکہ وہ عاجزی کریں۔ (16) امام ابن ابی حاتم نے ابن عجلان (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے سب زبانوں میں کلام فرمایا اور اس میں ا 8 سے ایک بربر کی زبان ہے فرمایا میں نے موسیٰ سے بربری زبان میں یہ کلام کیا کہ میں اللہ ہوں جو سب سے بڑا ہوں۔ (17) امام سعید بن منصور، ابن منذر، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے گفتگو فرمائی تو ان پر اون کا جبہ تھا۔ اور اون کی چادر تھی۔ اون کا پاجامہ تھا اون کی آستین تھی اور آپ جے جوتے غیر ذبح شدہ گدھے کے چمڑے کے بنے ہوئے تھے۔ (18) امام ابو الشیخ نے عبد الرحمن بن معاویہ (رح) سے روایت کیا کہ جب موسیٰ نے اپنے رب عزوجل سے کلام کیا تو چالیس دن وہاں ٹھہرے رہے کسی میں آپ کو دیکھنے کی تاب نہ تھی اور جو دیکھتا وہ رب العالمین کے نور سے مرجانا۔ (19) امام ابو الشیخ نے عروہ بن رویم (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ ، عورتوں کے پاس نہ آتے تھے۔ جب سے اپنے رب سے کلام کیا اور اپنے چہرہ پر آفتاب پہنے رہتے تھے۔ اور کوئی ان کی طرف نہیں دیکھ سکتا تھا مگر یہ کہ وہ مرجاتا تھا اور آپ نے جس عورت کے لئے بھی اپنے چہرہ کو ننگا کیا تو سورج کی شعاعیں اسے ڈھانپ لیتی تھی اور وہ اپنے ہاتھ اپنے چہرہ پر رکھ لیتی اور اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے گر جاتی۔ (20) امام ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابو نعیم نے حلیہ میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے ایک ہزار مقام سے گفتگو فرمائی جب بھی اللہ تعالیٰ ان سے کلام فرماتے تو آپ نور کو اپنے چہرہ پر دیکھتے تین دنوں تک راوی نے کہا موسیٰ بیوی کے قریب نہیں گئے جب سے اپنے رب سے کلام فرمایا۔ (21) امام ابن منذر نے عروہ بن رویم لخمی (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ کی بیوی نے موسیٰ سے فرمایا میں آپ سے بیوہ ہوچکی ہوں چالیس سال سے ایک بار تو مجھے اپنی دیدار سے نفع پہنچائے انہوں نے اپنے چہرہ سے برقع اٹھایا تو اس کے چہرہ کے نور نے ڈھانک لیا اس کی نظریں چمک اٹھیں کہنے لگی اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھ کو جنت میں آپ کی بیوی بنا دے۔ موسیٰ نے فرمایا اس شرط پر کہ تو میرے بعد کسی اور سے شادی نہیں کرے گی اور تو نہیں کھائے گی مگر اپنے ہاتھ کے کام سے راوی نے کہا کہ وہ پیچھے لگی رہتی تھی کھیتی کاٹنے والوں کے جب وہ یہ دیکھتے تو وہ ان کے لئے بڑی تیزی کرتے (یعنی تیزی سے فصل کاٹتے) جب موسیٰ کی بیوی نے اس کو محسوس کیا تو آپ کٹائی میں ان سے آگے نکل جائیں۔ (22) امام ابن ابی شیبہ، احمد نے زہد میں، ابوحنیفہ نے کتاب العلم میں اور امام بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جب ان کے رب نے کلام کیا اے میرے رب اپنے بندوں میں سے کون زیادہ محبوب ہے تیرے طرف فرمایا جو مجھ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں پھر موسیٰ نے پوچھا تیرے کون سے بندے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں فرمایا جو اپنی ذات پر بھی ایسا فیصلہ کرتے ہیں جیسے لوگوں پر فیصلہ کرتے ہیں۔ پھر پوچھا کون سے تیرے بندے زیادہ غنی ہیں فرمایا اور راضی ہوجاتے ہیں اس پر جو میں ان کو عطا کر دوں۔ (23) امام احمد نے زہد میں اور بیہقی نے ابن حسن (رح) سے روایت کیا کہ فرمایا کہ موسیٰ نے اپنے رب سے اجتماعی نیکی اور بھلائی کے بارے میں سوال کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوگوں کو ایسی چیزوں کا عادی بنا دے جن کا عادی بننا تو خود پسند کرتا ہے۔ (24) امام حکیم ترمذی نے نوادر لاصول میں اور بیہقی نے جریبر کے طریق سے ابن عباس ؓ روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے ایک لاکھ چالیس ہزار کلمات کے ساتھ تین دن میں گفتگو فرمائی جب موسیٰ لوگوں کے کلام سننے اس کو ناپسند کرتے کیونکہ آپ کے کانوں کے سوراخوں میں رب عزوجل کے کلام کی آواز پڑتی تھی اللہ تعالیٰ نے آپ سے کن چیزوں کے بارے میں گفتگو فرمائی ان میں سے یہ بھی ہے کہ فرمایا موسیٰ عمل کرنے والوں نے دنیا میں زہد کی مثل کوئی عمل نہیں کیا جو چیزیں میں نے لوگوں پر حرام کی ہیں ان سے پرہیز کرکے میرا قرب اختیار کرنے والوں کی طرف کسی نے میرا قرب حاصل نہیں کیا اور میرے خوف سے رونے کی مثل عبادت گزاروں نے میری عبادت نہیں کی موسیٰ نے عرض کیا اے میرے رب اے ساری مخلوق کے رب اے فیصلہ کے دن کے مالک اے جلال اور اکرام والے آپ نے ان کے لئے کیا تیار کیا ہے۔ اور ان کا کیا بدلہ ہے فرمایا دنیا میں زہد اختیار کرنے والے کے لئے میں نے اپنی جنت حلال کردی ہے۔ وہ جہاں چاہیں اس میں اپنا ٹھکانہ بنا سکتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو میری ان چیزوں سے بچنے والے جن کو میں نے ان پر حرام کردیا ہے ان کے سوا قیامت کے دن کوئی آدمی حساب کتاب کے دوران مناقشے اور اپنے اعمال پر جرح سے نہیں بچ سکے گا میں ان سے حیا کروں گا۔ ان کو عطا کروں گا اور ان کی عزت کروں گا۔ اور ان کے بغیر حساب کے جنت میں داخل کروں گا اور جو میرے ڈر سے رونے والے ہیں تو ان کے لئے تو صرف رفیق اعلی ہے اور کوئی بھی اس میں ان کے ساتھ شریک نہیں بنے گا۔ (25) امام ابو یعلی، ابن حبان، حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں اور امام حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ نے کہا اے میرے رب مجھ کو کوئی ایسا (وظیفہ) سکھاے ئے کہ جس کے ذریعہ میں تجھ کو یاد کیا کروں اور تجھ کو پکارا کروں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ ! کہو لا الہ الا اللہ۔ فرمایا اے میرے رب تیرا ہر بندہ یہ (کلمہ) کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا اے موسیٰ لا الہ الا اللہ کہو موسیٰ نے عرض کیا اے میرے رب لا الہ الا انت کہوں۔ مجھے کوئی خاص وظیفہ بتائیے فرمایا اے موسیٰ اگر ساتوں آسمان اور ان کے رہنے والے میرے علاوہ اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور لا الہ الا اللہ دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو لا الہ الا اللہ والا پلڑا بھاری ہوگا۔ (26) امام احمد نے زہد میں اور ابن ابی الدنیا نے کتاب الاولیاء میں عطاء بن یسار ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب کون ہیں جنہوں نے ان لوگوں کو ہلاک کیا جن کو تو اپنے عرش کا سایہ فرمائے گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان لوگوں کے ہاتھ بری ہیں۔ ان کے دل پاک ہیں۔ وہ لوگ جو کہ آپس میں محبت کرتے ہیں میرے جلال کی وجہ سے وہ لوگ جب میں ذکر کرتا ہوں تو وہ میرے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ اور جب وہ ذکر کرتے ہیں تو میں ان کے ذکر کے ساتھ ذکر کرتا ہوں جو اچھی طرح وضو کرتے ہیں ناگوار حالات میں اور رجوع کرتے ہیں میری یاد کی طرف جیسے کہ گدھ رجوع کرتے ہیں اپنے گھونسلے کی طرف اور وہ میری محبت کے اس طرح پابند ہوتے ہیں جیسے بچے لوگوں کی محبت کے مشتاق ہوتے ہیں۔ حرام کردہ چیزوں کے لئے غصہ ہوتے ہیں جب ان کو حلال کردیا جائے جیسے غصہ ہوتا ہے چیتا جب اس کو مصیبت پہنچتی ہے۔ (27) امام احمد نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ قصیر (رح) نے کہا موسیٰ بن عمران نے فرمایا اے میرے رب میں تجھ کو کہاں تلاش کروں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے ان کے پاس تلاش کرو جن کے دل عجز و انکساری کرنے والے ہیں میں ہر دن ایک ہاتھ ان کے قریب ہوتا ہوں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ گرجائیں (یعنی ختم) ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے (28) امام ابن مبارک اور احمد نے عمار بن یاسر ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے رب مجھے بتائیے کہ لوگوں میں سے کون تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیوں عرض کیا تاکہ میں ان سے محبت کروں تیری محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک بندہ ہے زمین کے کنارے میں رہتا ہے۔ دوسرے بندے نے اس کو سنا زمین کے دوسرے کنارے میں رہنے والے نے وہ اس کو نہیں پہنچانتا۔ اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچ جائے گویا کہ اس کو پہنچ گئی اور اگر اس کو کوئی کانٹا لگ جائے گویا اس کو کانٹا لگ گیا اور وہ یہ سب کچھ میرے لئے کرتا ہے۔ اس وجہ سے وہ میری مخلوق میں مجھے زیادہ محبوب ہے۔ پھر موسیٰ نے عرض کیا اے میرے رب تو نے مخلوق کو پیدا پیدا فرمایا پھر ان کو دوزخ میں داخل کرے گا یا ان کو عذاب دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ساری ہی میری مخلوق ہیں پھر (حکم) فرمایا فصل کاشت کرو پس آپ نے کاشت کی۔ فرمایا اس کو پانی پاؤ آپ نے اس کو پانی لگایا پھر فرمایا اس کی نگہداشت کرو پس اس کی نگرانی کرتے رہے۔ اس کو کاٹ دیا اور اسے اٹھا لیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ تیری کھیتی کہاں گئی عرض کیا میں اس سے فارغ ہوگیا میں نے اس کو اٹھایا ہے فرمایا تو نے اس میں سے کوئی چیز چھوڑی ؟ عرض کیا وہی چیز چھوڑی جس میں کوئی خیر نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسی طرح میں عذاب نہیں دوں گا مگر ان کو جن میں کوئی خیر نہیں ہوگی۔ (29) امام ابو نعیم نے حلیہ میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا سے میرے رب کہ تیرے بندوں میں سے کون زیادہ غنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ بندہ جو اسی پر قناعت کرتا ہے جو اسے دیا جاتا ہے پھر عرض کیا تیرے بندوں میں سے بہتر کون فیصلہ کرنے والا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ بندہ جو لوگوں کے لئے بھی ایسے فیصلہ کرتا ہے جیسے اپنے لئے کرتا ہے۔ پھر عرض کیا تیرے بندوں میں سے سب سے زیادہ علم والا کون ہے۔ فرمایا وہ جو زیادہ ڈرنے والا ہے۔ (30) امام ابو نعیم نے حلیہ میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ موسیٰ نے اپنے رب عزوجل سے سوال کیا تیرے بندوں میں کون زیادہ مالدار ہے فرمایا جو قناعت کرتا ہے جو وہ دیا گیا پھر پوچھا تیرے بندوں میں سے کون زیادہ انصاف کرنے والا ہے۔ فرمایا وہ جو لوگوں کے لئے ایسا فیصلہ کرتا ہے جو اپنے لئے ایسا فیصلہ کرتا ہے۔ پھر پوچھا تیرے بندوں میں جو زیادہ جاننے والا ہے فرمایا ان میں سے زیادہ ڈرنے والا۔ یتیم اور بیوہ عورتوں کی مدد کرنا (31) امام ابوبکر بن ابی عاصم نے کتاب السنۃ میں اور ابو نعیم نے انس ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ ایک دن راستہ میں چل رہے تھے۔ جبار عزوجل (یعنی اللہ تعالیٰ ) نے پکارا۔ اے موسیٰ تو آپ نے دائیں طرف بائیں طرف توجہ کی تو کسی کو بھی نہ دیکھا تم دوسری بار اللہ تعالیٰ نے ندا دی۔ اے موسیٰ بن عمران پھر آپ نے دائیں اور بائیں توجہ فرمائی کسی کو نہ دیکھا آپ نے گھبراہٹ طاری ہوگئی پھر تیسری مرتبہ پکارا گیا اے موسیٰ بن عمران بیشک میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں موسیٰ نے عرض کیا لبیک لبیک اور اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہوئے گرپڑے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ بن عمران سر اٹھائیے انہوں نے سر اٹھایا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ کیا تو پسند کرتا ہے کہ تو میرے عرش کے نیچے اس دن آکر ٹھہرے جس دن میرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ (لہٰذا تو) یتیم کے لئے رحیم اور یتیم باپ کی طرح بن جا۔ اور بیوہ عورت کے لئے مہربان شوہر کی طرح بن جا۔ اے موسیٰ بن عمران تو رحم کر رحم کیا جائے گا سے موسیٰ جیسے کرے گا ویسا بھرے گا۔ اے موسیٰ بن اسرائیل کے نبی جو مجھ سے ملاقات کرے اس حال میں کہ وہ محمد ﷺ کا انکار کرنے والا ہو تو اس کو آگ میں داخل کروں گا۔ عرض کیا احمد کون ہے۔ فرمایا اے موسیٰ میری عزت اور میرے جلال کی قسم میں نے کسی مخلوق کو پیدا نہیں کیا جو اس سے بڑھ کر میرے نزدیک زیادہ عزت والی ہو۔ میں نے اس کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے۔ عرش میں آسمان زمین سورج اور چاند کے پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے اور میری عزت اور میرے جلال کی قسم کہ جنت حرام ہے میری ساری مخلوق پر یہاں تک کہ محمد اور اس کی امت داخل نہ ہوجائے۔ موسیٰ نے عرض کیا احمد کی امت کون ہے ؟ فرمایا اس کی امت بہت زیادہ حمد بیان کرنے والی ہے۔ جو حمد بیان کرتے ہیں چڑھتے ہوئے اور اترتے ہوئے اور ہر حال پر اور اپنی کمروں کو مضبوطی سے باندھ رہیں گے۔ اور اپنے اعضا کو پاک رکھیں گے۔ دن کو روزہ رکھیں گے اور رات کو عبادت ہوگی میں نے ان میں سے تھوڑے عمل کو بھی قبول کروں گا اور ان کو جنت میں داخل کروں گا ” ان لا الہ الا اللہ کی شہادت کی وجہ سے موسیٰ نے فرمایا مجھے اس امت کا نبی بنا دیجئے فرمایا ان کا نبی انہی میں سے ہوگا عرض کیا مجھ کو اس نبی کی امت میں سے بنا دیجئے فرمایا میں نے تجھ کو مقدم کیا اور میں ان کو موخر کروں گا اے موسیٰ لیکن میں عنقریب تم کو جمع کروں گا۔ دار الجلال میں۔ (32) امام ابو نعیم نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری خدا اس شخص کا کیا بدلہ ہے جو تجھ کو اپنی زبان یا اپنے دل سے یاد کرے ؟ فرمایا اے موسیٰ اس کو اپنے عرش کے نیچے قیامت کے دن سایہ عطا کروں گا۔ اور اس کو اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھوں گا۔ عرض کیا اے میرے رب تیرے بندوں میں سے کون بدبخت ہے فرمایا وہ شخص جس کو نصیحت کوئی فائدہ نہ دے اور مجھ کو یاد نہیں کرتا جب خلوت میں ہوتا ہے۔ (33) امام ابو نعیم نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب کیا بدلہ ہے اس شخص کا جو یتیم کو ٹھکانے دے یہاں تک کہ وہ مالدار ہوجائے۔ یا کسی بیوی کی کفالت کرے۔ فرمایا میں اس کو اپنی جنت میں ٹھہراؤں گا اور اس کو اس دن سا یہ عطا کروں گا کہ جس دن میرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (34) امام ابن شاہین نے ترغیب میں ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب کیا بدلہ ہے اس شخص کا جس نے کسی ایسی عورت کو صبر دلایا جس کا بچہ مرگیا فرمایا میں اس دن اس کو اپنے سایہ میں جگہ دوں گا جس دن میرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (35) امام آدم بن ابی ایاس نے کتاب العلم میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جب موسیٰ سرگوشی کرتے ہوئے قریب ہوئے تو عرش کے سایہ میں ایک آدمی کو دیکھا آپ کو اس کی جگہ پر رشک آگیا اس کے بارے میں پوچھا لیکن اس کے نام کے بارے میں نہ بتایا گیا۔ اور اس کے عمل کے بارے میں بتایا گیا۔ ان سے فرمایا یہ ایسا آدمی ہے جو لوگوں پر حسد نہیں کرتا ان چیزوں پر جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہیں۔ والدین کا فرمانبرداری ہے چغلی بھی نہیں کھاتا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ تو کس چیز کی طلب میں آیا ہے۔ عرض کیا اے میرے رب میں ہدایت کو طلب کرنے کے لئے آیا ہوں۔ فرمایا اے موسیٰ تحقیق تو نے اس کا پالیا ہے۔ عرض کیا اے میرے رب میرے پہلے گناہوں کو اور جو میں نے کینہ رکھا سب کو بخش دیجئے اور جو کچھ اس درمیان (گناہ ہوئے) ان کو بھی بخش دیجئے۔ اور آپ مجھ سے زیادہ جاننے والے ہیں اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں اپنے دل کے وسوسے سے اور اپنے عمل کی برائی سے۔ ان سے کہا گیا کہ تیرے لئے کافی ہے اے موسیٰ عرض کیا اے میرے رب تیرا کون سا بندہ تقوی والا ہے فرمایا جو مجھ کو یاد کرتا ہے اور بھولتا نہیں عرض کیا اے میرے رب تیرے کون سے بندے مالدار ہیں فرمایا جو قناعت کرتے ہیں اس مال پر جو میں نے اس کو دیا عرض کیا اے میرے رب تیرے بندوں میں سے کون افضل ہے فرمایا جو حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور خواہش کی پیروی نہیں کرتا۔ عرض کیا اے میرے رب تیرے بندوں میں سے کون زیادہ عالم ہے فرمایا جو لوگوں کا علم طلب کرتا ہے اپنے علم کے ساتھ شاید کہ وہ اپنے کلمہ کو سن لے جو اس کو حق پر دلالت کرلے اس کو بےکار عمل سے دور کر دے۔ عرض کیا اے میرے رب تیرے بندوں میں کون سا محبوب ہے تیری طرف عمل کے لحاظ سے فرمایا وہ شخص کہ اس کی زبان جھوٹ نہیں بولتی اور اس کی فرج زنا نہیں کرتی اور اس کا دل فسق و فجور کا مرتکب نہیں ہوتا۔ عرض کیا اے میرے رب پھر اس اثر پر کون ہوگا۔ فرمایا مومن کا دل عرض کیا اے میرے رب تیرے بندوں میں تیرے نزدیک کان زیادہ مبغوض ہے۔ فرمایا کافر کا دل عرض کیا اے میرے رب پھر اس اثر پر کون ہے ؟ فرمایا جو مردار ہو رات کے وقت اور ناحق کرنے والا دن کے وقت میں۔ ذکر اللہ کی کیفیت (36) امام احمد نے زہد میں ابو الجلد (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی جب تو میرا ذکر کرے میرا ذکر اس طرح کر کہ تیرے اعضاء کانپنے لگیں۔ اور میرے ذکر کے وقت ڈرنے والا اطمینان پکڑنے والا بن جا اور جب مجھ کو یاد کرے تو اپنی زبان کو اپنے دل کے پیچھے کر دے۔ اور جب تو میرے سامنے کھڑا ہو تو ایک حقیر ذلیل بندہ کے طرح کھڑا ہو اور اپنے نفس کی مذمت کر۔ کیونکہ وہ مذمت کرنے کے زیادہ لائق ہے۔ اور مجھ سے سرگوشی کر جب تو سرگوشی کرے خوف زدہ دل اور سچی زبان کے ساتھ۔ (37) امام احمد نے اہل کتاب میں سے ایک آدمی قسی سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی طرف وحی فرمائی اے موسیٰ اگر تیرے پاس موت آجائے اس حال میں کہ تو وضو کے ساتھ نہ ہو تو نہ ملامت کرنا مگر اپنے نفس کو (پھر) ان کی طرف وحی کی گئی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ صدقہ کے ذریعہ تکلیف یا مصیبت میں ستر دروازوں کو بند کردیتے ہیں جیسے غرق ہونا آگ میں جلنا، چوری ہونا اور ذات الجنب (ان سب کو صدقہ کے ذریعہ دور فرما دیتے ہیں) موسیٰ نے عرض کیا اور جہنم کی آگ کو بھی (ہٹا دیں گے) فرمایا اور آگ کو بھی۔ (38) امام احمد نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی طرف وحی فرمائی کہ خیر اور بھلائی سیکھو اور سکھاؤ کیونکہ میں خیر کے سکھانے والے اور اس کے سیکھنے والوں کی قبروں کو روزن کردیتا ہوں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جگہوں میں کوئی وحشت نہیں کرتے۔ (39) امام حکیم ترمذی نے نوادرالاصول میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جب موسیٰ طور سینا پر چڑھے تو رب جبار نے ان کی انگلی میں انگوٹھی دیکھی فرمایا اے موسیٰ یہ کیا ہے ؟ حالانکہ وہ اس کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ عرض کیا اے میرے رب مردوں کے زیور میں سے ایک چیز ہے۔ فرمایا میری ناموں یا میرے کلام میں سے کیا اس پر کچھ لکھا ہوا ہے۔ عرض کیا نہیں فرمایا اس پر لکھ دو لفظ آیت ” لکل اجل کتاب “ (الرعد آیت 380) (40) امام حکیم ترمذی نے عطاء (رح) سے روایت کی ہے کہ موسیٰ نے فرمایا اے رب تو بچے کو یتیم کردیتا ہے اس کے والدین سے اور تو اس کو اسی طرح چھوڑ دیتا ہے۔ فرمایا اے موسیٰ کہ تو مجھ پر راضی نہیں کہ میں کفالیت کرنے والا ہوں۔ (41) امام ابن مبارک نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب تیرے بندوں میں سے کون تجھ کو زیادہ محبوب ہے۔ فرمایا ان میں سے جو مجھ کو زیادہ جاننے والا ہے۔ (42) امام احمد نے زہد میں اور ابو نعیم نے حلیہ میں وھب (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب ! مجھ سے عنقریب پوچھیں گے تیری ابتداء کیسی ہوئی۔ فرمایا ان کو بتادو کہ بلاشبہ میں ہر چیز سے پہلے ہوں اور بنانے والا ہوں ہر چیز کو اور ہر چیز کے بعد بھی ہوں گا۔ (43) امام احمد نے زہد میں ابو الجلد (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ نے اپنے رب سے سوال کیا اے میرے رب کہ مجھ پر ایک ایسی پکی نشانی اتارئیے کہ میں اس کو لے کر تیرے بندوں میں چلتا رہوں اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی اے موسیٰ تو چلا جا۔ اور جو تو پسند کرے کہ وہ میرے بندے تیری طرف لے کر آئیں پس وہی تو ان کی طرف لے کر جائے گا۔ (44) امام احمد نے قتادہ (رح) سے روایت کی ہے کہ موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب کون سی چیز آپ نے تھوڑی رکھی فرمایا انصاف کو کہ وہ ان چیزوں میں سے سے کم ہے جو زمین میں رکھی گئی ہیں۔ (45) امام احمد نے عمر بن عمرو بن قیس (رح) سے روایت کیا ہے کہ موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب لوگوں میں کون زیادہ تقوی والا ہے فرمایا جو ذکر کرتا ہے اور بھولتا نہیں۔ پھر فرمایا لوگوں میں کون زیادہ جاننے والا ہے۔ فرمایا جو لوگو ؓ کے علم میں سے لیتا ہے اپنے علم کی خاطر۔ مریضوں کی عیادت کرنے والوں کی فضیلت (46) امام احمد اور ابو نعیم نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ نے فرمایا اے میرے رب تیرے بندوں میں سے کون تجھ کو زیادہ محبوب ہے ؟ فرمایا جو اپنی رؤیت کے ساتھ ذکر کرنے والا ہو پھر عرض کیا اے میرے رب ! تیرے بندوں میں سے کون تجھ کو زیادہ محبوب ہے ؟ فرمایا وہ لوگ جو مریضوں کی عیادت کرتے ہیں بچے کی موت پر روزنے والی عورت پر رونے والی عورت کو صبر اور تسلی دیتے ہیں اور گم کردہ راہ عورت کو منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں۔ (47) امام ابن منذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ جب پہاڑوں سے کہا گیا کہ وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) تجلی ڈالنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو سب پہاڑوں نے فخر اور تکبر کیا اور اس پہاڑ نے عاجزی اختیار کی جس پر اس نے تجلی ڈالی۔ (48) امام بیہقی نے شعب میں احمد بن ابی الحواری کے طریق سے ابو سلیمان (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دلوں میں (اپنی شان کے لائق) جھانکا تو نہ پایا کسی دل کو زیادہ تواضع کرنے والا موسیٰ کے دل سے تو کلام کے ساتھ ان کو خاص فرمایا ان کی تواضع کی وجہ سے راوی کا بیان ہے کہ ابو سلیمان کے علاوہ کسی اور نے یہ کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی پہاڑوں کی طرف میں بات کرنے والا ہوں تم پر اپنے بندوں میں سے ایک بندہ کے ساتھ۔ تو پہاڑ فخر وتکبر کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنے بندے سے کلام فرمائے گا لیکن طور نے تواضع کی۔ راوی کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طور کے تواضع کی وجہ سے اس پر موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا۔ (49) امام ابن ابی حاتم نے علاء بن کثیر (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ کیا تو جانتا ہے میں نے تجھ سے کیوں بات کی۔ عرض کیا اے میرے رب میں نہیں جانتا فرمایا بیشک میں نے کسی مخلوق کو پیدا نہیں کیا جس نے میرے لئے تیری طرف عاجزی کی ہو۔ کوہ طور کی عجزو انکساری (50) امام احمد نے زھد میں اور نعیم نے حلیہ میں نوف بکالی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کی طرف وحی کہ میں تم میں سے ایک پہاڑ پر نزول کرنے والا ہوں تو سب پہاڑوں نے تکبر کیا مگر طور پہاڑ نے عاجزی کا اظہار کیا اور کہا میں اس پر راضی ہوں جو میرے لئے حصہ تقسیم کیا گیا اور امر اس کے مطابق ہوگا۔ اور دوسرے لفظ میں فرمایا اگر میرے لئے کوئی چیز مقدر کی گئی تو عنقریب مجھ پر لائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ میں عنقریب تجھ پر ہی نزول کروں گا۔ تیری عاجزی کی وجہ سے اور میری قدرت کے ساتھ تیری رضا مندی کی وجہ سے۔ (51) امام خطیب نے تاریخ میں ابو خالد احمق (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کلام فرمایا تو ابلیس پہاڑ پر ظاہر ہوا۔ جب جبرائیل نے اسے پالیا تو فرمایا دور ہوجا اے لعین تو یہاں کیا کرتا ہے ؟ اس نے کہا میں آیا ہوں اور میں موسیٰ سے وہی توقع رکھتا ہوں جو میں نے ان کے باپ سے رکھی۔ جبرئیل نے اس سے فرمایا دور ہوجا ! (اے لعین پھر جبرئیل رونے لگے موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے اللہ تعالیٰ نے جب کہ قوت گویائی عطا فرمائی۔ اس جبہ نے کہا اے جبرئیل یہ رونا کیسا ہے۔ انہوں نے کہا میں اللہ سے قرب میں ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ اللہ کے کلام کو سنوں جیسے اس کو موسیٰ سنتے ہیں۔ جبہ نے کہا اے جبرئیل میں موسیٰ کا جبہ ہوں اور میں ان کے جسم پر ہوں کہا میں موسیٰ کی طرف زیادہ قریب ہوں یا تو زیادہ قریب ہے اے جبرئیل میں وہ نہیں سن سکتا جو تو سنتا ہے۔
Top