Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 142
وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً١ۚ وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ
وَوٰعَدْنَا : اور ہم نے وعدہ کیا مُوْسٰي : موسیٰ ثَلٰثِيْنَ : تیس لَيْلَةً : رات وَّاَتْمَمْنٰهَا : اور اس کو ہم نے پورا کیا بِعَشْرٍ : دس سے فَتَمَّ : تو پوری ہوئی مِيْقَاتُ : مدت رَبِّهٖٓ : اس کا رب اَرْبَعِيْنَ : چالیس لَيْلَةً : رات وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَخِيْهِ : اپنے بھائی سے هٰرُوْنَ : ہارون اخْلُفْنِيْ : میرا خلیفہ (نائب) رہ فِيْ قَوْمِيْ : میری قوم میں وَاَصْلِحْ : اور اصلاح کرنا وَلَا تَتَّبِعْ : اور نہ پیروی کرنا سَبِيْلَ : راستہ الْمُفْسِدِيْنَ : مفسد (جمع)
اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کی میعاد مقرر کی۔ اور دس (راتیں) اور ملا کر اسے پورا (چلہ) کردیا تو اس کے پروردگار کی چالیس رات کی میعاد پوری ہوگئی۔ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میرے (کوہ طور پر جانے کے) بعد تم میری قوم میں میرے جانشین ہو (ان کی) اصلاح کرتے رہنا اور شریروں کے راستہ نہ چلنا۔
تفسیر ذکر مکالمہ خداوندی با موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) وعطاء تورات قال اللہ تعالیٰ وواعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃ۔۔۔ الی۔۔۔ ھل یجزون الا ما کانو یعملون (ربط) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے وعدہ فرمایا تھا کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کرے گا اور تمہیں ان کا جانشین اور ان کے ملک کا وارث بنائے گا اور اس وقت میں تم کو حق تعالیٰ کی طرف سے ایک کتاب ہدایت مآب لا کر دونگا جو تمہارے لیے دستور العمل ہوگی چناچہ جب فرعون ہلاک ہوگی اور بنی اسرائیل کو اس کے پنجۂ ظلم سے نجات ملی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کتاب کی درخواست کی۔ حکم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر آکر اعتکاف کریں اور تیس روزے رکھیں اس کے بعد کتاب عنایت ہوگی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے آخری روزہ میں منہ کی بو دفع کرنے کے لیے مسواک کرلی تو فرشتوں نے کہا کہ اے موسیٰ تمہارے منہ سے جو مشک کی خوشبو آتی تھی وہ جاتی رہی اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ دس دن اور روزے رکھیں تاکہ چلہ پورا ہوجائے۔ اکثر اسلاف کے نزدیک یہ چلہ یکم ذیقعدہ سے شروع ہو کر دس ذی الحجہ کو پورا ہوا غرض یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر چالیس دن ٹھہرے اس کے بعد اب کو توریت عطاء ہوئی ان آیات میں عطاء تورات اور مکالمۂ خداوندی کا قصہ ذکر کیا جاتا ہے اور جب بنی اسرائیل کو طرح طرح کی پریشانیوں سے اطمینان نصیب ہوا تو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ آپ ہمارے لیے کوئی آسمانی شریعت لائیے تاکہ اب ہم فراغ خاطر کے ساتھ اس پر عمل کریں اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ خداوندی میں درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اس وقت ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے توریت دینے کے لیے تیس رات کا وعدہ کیا کہ کوہ طور پر آکر اعتکاف کرو اور تیس روزے رکھو تو ہم تم کو تورات دیں گے اور بعد ازاں ان میں دس اور ملا کر پورا چالیس کردیا۔ جمہور مفسرین کے نزدیک وہ تیس راتیں ذیقعدہ کی تھیں اور دس راتیں ذی الحجہ کی تھیں اس بناء پر دسویں تاریخ ذی الحجہ کو کلام الٰہی نصیب ہوا۔ اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے لیے دین کو مکمل کیا قال تعالیٰ الیوم اکملت لکم دینکم۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) تیس روزے رکھ چکے تو روزے میں خشکی کی وجہ سے منہ میں جو بدبو پیدا ہوجاتی ہے تو وہ بو ناگوار معلوم ہوئی اس بو کے دفع کرنے کے لیے مسواک کرلی۔ فرشتوں نے کہا اے موسیٰ ! ہم تمارے منہ سے مشک کی خوشبو سونگھتے تھے مسواک کرنے سے وہ خوشبو جاتی رہی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ دس روزے اور کھیے تاکہ چلہ پورا ہوجائے پس اس طرح ان کے پروردگار کا مقرر کردہ وقت چالیس رات پورا ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور کو جاتے وقت اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میں تو توریت لینے کے لیے طور سینا کی طرف جا رہا رہا ہوں میں جب تک واپس آؤں میری قوم میں تو میرا قائم مقام رہ اور ان کی اصلاح کرتا رہ یعنی صلاح اور تقویٰ کے کاموں میں ان کو لگائے رکھ اور مفسدوں کی راہ پر نہ چلنا یعنی اگر میرے پیچھے یہ لوگ کسی قسم کا فتنہ و فساد برپا کریں اور تیرا کہنا نہ مانیں تو اس وقت تو ان سے علیحدہ ہوجانا اور ان کی پیروی نہ کرنا۔ اور نہ کسی بات میں ان کی موافقت کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ان کی اصلاح ممکن نہ ہوں تو ان سے علیحدگی اختیار کرلینا اور اسکے بعد جب موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے وعدے کے مطابق وقت مقررہ پر پہنچے اور ان کے پروردگار نے بلا واسطہ فرشتہ کے ان سے کلام کیا جیسا کہ وہ خداوند قدوس جبرئیل اور میکائیل سے بلا واسطہ کلام کرتا ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) کو غایت حلاوت کی وجہ سے اللہ کا کلام سن کر شوق پیدا ہوا کہ اس کلام کے متکلم کو دیکھوں تو زیادتئ شوق سے مجبور ہو کر بولے اے میرے پروردگار مجھے اپنے جمال بےمثال کا ایک جلوہ دکھا کہ تیری طرف ایک نظر اٹھا سکوں۔ تاکہ کلام اور گفتار کے ساتھ دیدار کی نعمت اور کرامت بھی جمع ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں کہا کہ اے موسیٰ تو مجھے اس دار فانی میں ان کمزور آنکھوں کے ساتھ ہرگز نہیں دیکھ سکے گا یعنی تجھ سے میرے جمال بےمثال کا تحمل نہیں ہوسکے گا۔ انسان ضعیف البنیان ہے اس دار فانی میں خداوند ذوالجلال کے جلوہ کو برداشت نہیں کرسکتا اور اس کے جمال بےمثال کی تاب نہیں لاسکتا و لیکن تمہاری تسلی اور تشفی کے لیے یہ کرتا ہوں کہ پہاڑ پر تھوڑی سی تجلی کرتا ہوں پس تم پہاڑ کی طرف نظر کرم کرو کہ جو وجود جسمانی میں تم سے کہیں زیادہ قوی ہے اور تحمل کی قوت اس میں تم سے زیادہ ہے پس اگر ہماری اس تجلی کے بعد یہ پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہا تو قریب ہے یعنی ممکن ہے کہ تو بھی مجھے دیکھ سکے گا اور میری تجلی کا تحمل کرسکے گا۔ مطلب یہ ہے کہ کسی مخلوق کا فانی اور کمزور وجود اس دار فانی میں اس کے دیدار کا تحمل نہیں کرسکتا لیکن خیر ہم تھوڑی دیر کے لیے اپنے جمال دلربا کی ایک جھلک اس پہاڑ پر ڈالتے ہیں پس اگر پہاڑ جیسی سخت اور مضبوط چیز اس کو برداشت کرسکی تو ممکن ہے کہ تم بھی اس کو برداشت کرسکو۔ جیسے انسان ضیعفی البنیان نے اس امانت کے بوجھ کو اٹھا لیا جس کو آسمان اور زمین نہ اٹھا سکو۔ کما قال تعالیٰ فابین ان یحملنھا واشفقنا منھا وحملہا الانسان۔ وقال تعالیٰ لو انزلنا ھذ القران علی جبل لرایتہ خاشعا متصدعا من خشیۃ اللہ۔ اور اگر پہاڑ جیسی قوی اور مضبوط چیز بھی تحمل نہ کرسکے تو سمجھ لیجئے کہ جس چیز کا تحمل پہاڑ سے نہ ہوسکے تو انسان ضعیف البنیان سے اس کا تحمل کیسے ہوسکتا ہے اس لیے کہ دیدار کا تعلق ظاہری آنکھوں سے ہے اور ظاہری وجود کے اعتبار سے انسان بہت کمزور ہے۔ کما قال تعالیٰ وخلق الانسان ضعیفا۔ وقال تعالیٰ لخلق السموات والارض اکبر من خلق الناس ولکن اکثرھم لا یعلمون۔ مطلب یہ ہے کہ اے موسیٰ انسان کے اعتبار سے تمہارا وجود کمزور ہے تم سے اس کا تحمل نہ ہوسکے گا۔ دیدار کے حق میں ہماری طرف سے کوئی مانع نہیں مانع تمہاری طرف سے ہے یعنی تمہارا ضعف رویت باری کے تحمل سے مانع ہے پھر جب ان کے پروردگار نے اس پہاڑ پر اپنی تجلی فرمائی یعنی اس پر اپنے نور کی ایک جھلک دالی تو اس تجلی کے سبب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر اپنی تجلی فرمائی یعنی اس پر اپنے نور کی ایک جھلک ڈالی تو اس تجلی کے سب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کے اس حصے کو جس پر تجلی ہوئی ریزہ ریزہ کردیا۔ یعنی اس تجلی کی عظمت سے پہاڑ کا ایک حصہ پارہ پارہ ہوگیا اور پہاڑ کا ایک حصہ زمین کے برابر ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اس ہیبت ناک منظر کو دیکھ کر بےہوش ہوگئے بلا تشبیہ و تمثیل یوں سمجھئے کہ جس چیز پر بجلی گرتی ہے وہ چیز جل کر ایک آن میں خاک ہوجاتی ہے اور جو لوگ اس کے قریب ہوتے ہیں کم و بیش ان کو صدمہ پہنچتا ہے۔ پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) کو ہوش آیاتو یہ بولے سبحنک تبت الیک وانا اول ال مومنین یعنی اے اللہ تو پاک ہے اس سے کہ دنیا میں تجھے کوئی دیکھ سکے اگر دیکھے تو مرجائے دنیا کی فانی آنکھوں میں یہ طاقت نہیں کہ تیرے دیدار کا تحمل کرسکیں میں فرط شوق میں یہ درخواست کر گزرا لیکن آیندہ کے لیے میں توبہ کرتا ہوں کہ اس دار فانی میں آئندہ کبھی رویت کا سوال نہ کروں گا اور میں سب سے پہلے تیرے لیے عظمت اور جلال پر یا تیرے ارشاد لن ترانی پر ایمان لانے والا ہوں یا اس بات پر ایمان لانے والا ہوں کہ دار فانی میں کسی بشر کی یہ طاقت نہیں کہ وہ تجھے دیکھ سکے اور میں پہلا ایمان لانے والا ہوں کہ دار دنیا میں قیامت تک تجھ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا یعنی مجھ پر شہودی اور عیانی طور پر یہ امر منکشف ہوگیا کہ اس دارفانی میں ان ظاہری آنکھوں سے تیرا دیدار ممکن نہیں اور میں پہلا مومن ہوں جو اس بات کا قائل ہو کہ اس دار فانی میں اس چشم فانی سے کوئی شخص بھی قیامت تک اپنے پروردگار کو نہیں دیکھ سکتا بےفناء خود میسر نیست دادار شما می فروشد خویش را اول خریدار شما ۔ فرمود پروردگار ہرگز بچشم فانی مرا نتوانی دید کہ قوائے عنصری تحمل آں ندارند (دیکھو تیسیر القاری شرح بخاری ص 340 ج 3) : حضرات انبیاء (علیہم السلام) سے اگر کوئی ذرا سی بھی لغزش اور سہو سے برائے نام خلاف ادب کوئی امر سرزد ہوجاتا ہے تو حضرات انبیاء اس بھول چوک سے گناہوں کی طرح توبہ اور استغفار کرتے ہیں۔ اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے سوال دیدار سے توبہ اور معذرت کی اور کہا کہ پہاڑ کے حال کے مشاہدہ سے مجھ کو اس بات کا ایمان شہودی حاصل ہوگیا کہ بشر کی چشم حادژات میں یہ قوت اور طاقت نہیں کہ وہ آپکے جلوہ کا تحمل کرسکے بندہ آپ کو اس دارفانی میں اپنی قوت اور طاقت سے نہیں دیکھ سکتا البتہ جب آخرت میں آپ اس کو قوت اور قدرت عطاء کریں گے تو وہ آپ کو اپ کی قدرت سے دیکھ سکے گا۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ حدوث کے قَدَم بارگاہ قِدَ م میں بدون خداوند قدیم کی تائید اور تقویت کے نہیں ٹھہر سکتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی تسلی موسیٰ (علیہ السلام) کو چونکہ لن ترانی کے جواب سے اور دیدار کی محرومی سے رنج اور قلق ہوا اس لیے اب آئندہ آیت میں ان کی تسلی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ تم ہمارے اس جواب لن ترانی سے رنجیدہ اور غمگین نہ ہونا اگر اس وقت تجھے میرا دیدار میسر نہ ہوسکا تو نہ سہی کی تیرے شرف اور امتیاز کے لیے یہ کافی نہیں کہ تحقیق میں نے تجھ کو اپنے پیغامات اور بلا واسطہ کلام کے ذریعے لوگوں پر برگزیدگی اور برتری کی یعنی تجھ کو اپنی نبوت و رسالت کا خلعت پہنایا اور بلا واسطہ تجھ سے کلام کیا اور تجھ کو توریت عطاء کی۔ پس کیا یہ شرف امتیاز کچھ کم ہے۔ پس جو شرف اور امتیاز میں تجھ کو عطاء کیا اس کو لے لے اور شکر کرنے والوں میں سے ہوجا۔ یعنی خدا کے خاص الخاص شکر گزاروں میں سے ہوجا جو دید یا اسکا شکر کرو اور جو نہیں دیا اس کے رنج وفکر میں نہ پڑ اور جو چیز تیری طاقت اور تحمل سے باہر ہے اس کا سوال نہ کر اور رویت کے حاصل نہ ہونے کا افسوس نہ کر یہ نعمت صرف آخرت کے لیے مخصوص ہے۔ لن ترانی می رسد از طور موسیٰ را جواب ہر چہ آں از دوست آید سر بنہ گردن بیتاب اور علاوہ رسالت اور کلام اور علاوہ رسالت اور کلام کے ہم نے یہ شرف بخشا کہ ہم نے چند تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ کر ان کو دی یعنی دین کے بارے میں جتنی نصیحتوں کی ضرورت تھی وہ سب لکھ کردی اور ہر چیز میں اوامر اور نواہی کی تفصیل کردی پھر ہم نے موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) کو حکم دیا کہ ان تختیوں کو مضبوطی سے پکڑو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ صدق اور عزیمت کے ساتھ الواح توریت میں جو چیزیں لکھی ہوئی ہیں ان میں سے بہتر چیز کو پکڑیں یعنی جس چیز کا اجر اور ثواب دوسرے سے بڑھ کر اور بیشتر ہے اس کو لیویں اور اختیار کریں۔ منجملہ احسن کے ایک یہ ہے کہ عزیمت اور افضل پر عمل کریں اور حتی الوسع رخصت اور مفضول یعنی کمتر کو اختیار نہ کریں۔ اور میں عنقریب تم کو نافرمانوں کے مکانات دکھلاؤں گا اور قوم ثمود کی بستیاں دکھلاؤں گا کہ کیسی ویران اور تباہ پڑی ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر عبرت پکڑو قطعہ چشم عبرت بیں چرا در قصر شاہاں ننگرد : تاچہ ساں از حادثات دور گردوں شد خراب پردہ داری می کند بر طاق کسری عنکبوت : چغد نوبت می زند بر قلعۂ افراسیاب مطلب یہ ہے کہ میں عنقریب تجھ کو دکھلاؤں گا کہ فاسق اور فاجر فسق وفجور کر کے کس بربادی اور تباہی کے گھر میں بستے ہیں اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ دار فاسقین سے فرعونیوں کے مکانات مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ میں عنقریب تم کو فرعون اور قبطیوں کے مکانات کا وارث بناؤں گا اور تم کو یہ دکھلا دوں گا کہ خدا دشمنوں کے مکانات کا دوستوں کو کیسے وارث بناتا ہے۔ ان آیات میں اطاعت کی ترغیب تھی اب آئندہ آیات میں تکبر اور سرکشی سے ترہیب ہے چناچہ فرماتے ہیں کہ عنقریب اپنی آیتوں کے قبول کرنے اور ان کے سمجھنے سے ان لوگوں کے دلوں کو پھر دوں گا اور اپنے احکام سے برگشتہ کردوں گا جو زمین میں ناحق اور بلاوجہ کے تکبر کرتے ہیں یعنی ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم متکبروں کے دل پر مہر کردیتے ہیں تاکہ وہ حق بات کو نہ سمجھ سکیں۔ کما قال تعالیٰ فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم۔ اور تکبر کی وجہ سے وہ عقل اور فہم سے اس قدر دور ہوجاتے ہیں کہ اگر وہ ساری نشانیاں بھی آنکھوں سے نکال لیں تب بھی ان کا یقین نہ کریں اور اگر ہدایت کی راہ دیکھیں تو اس راہ کو نہ پکڑیں اور اگر یہ متکبر الٹی راہ دیکھ لیں تو اسکو پکڑ لیں یہ ان کے دلوں کی کجی اور بیراہی اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے تکبر کی وجہ سے ہماری آیتوں کی تکذیب کی اور عناد کی وجہ سے دیدہ و دانستہ ہماری آیتوں سے غافل بن گئے اس لیے ان کو یہ سزا ملی کہ ان کے دل حق سے پھیر دئیے گئے اور ان کی عقل الٹی ہوگئی یہ سزا تو دنیا میں ملی اور آخرت میں یہ سزا ملے گی کہ جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور آخرت کی ملاقات اور پیشی کو جھٹلایا یعنی جزاء وسزا کے منکر ہوئے ان کے وہ سب کام جن پر وہ نفع کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ سب تباہ اور غارت ہوئے نہیں بدلہ پاویں گے آخرت میں مگر جو دنیا میں کرتے تھے۔ ان آیات سے مقصود تنبیہ ہے کہ آیات خداوندی کے مشاہدہ کے بعد ان سے غفلت اور اعراض تباہی اور بربادی کا موجب ہے۔ لطائف و معارف 1 ۔ اس آیت (وکلمہ ربہ) سے خداوند تعالیٰ کا متکلم ہونا ثابت ہوا مگر خدا کے کلام کی اصل صفت اور کیفیت سوائے اس خدا کے جس نے جس سے کلام کیا ہو اور کسی کو معلوم نہیں ہوسکتی۔ جس طرح خدا کی ذات بےچون وچگون اور بےمثال ہے ہم نہ اس کی ذات کی کنہ کو پہنچ سکتے ہیں اور نہ اس کی صفات کی کنہ کو۔ سعدی علیہ الرحمۃ نے کیا خوب کہا ہے۔ نہ ادراک درکنہ ذاتش رسد : نہ غورت بفکر صفاتش رسد اس لیے اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث بلکہ تمام کتب سماویہ سے خدا تعالیٰ کا متکلم ہونا ثابت ہے اور کلام اس کی صفت قدیمہ اور ازلیہ ہے اور اس کے کلام میں حرف اور صوت نہیں اللہ کا کلام انسان کے کلام کے مشابہ نہیں جو حرف اور صوت کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا ہے اور زبان اور ہونٹ اور حلقوم سے نکلتا ہے۔ لیس کمثلہ شیئ وھو السمیع البصیر۔ اور حنابلہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ خدا کا کلام حروف اور الفاظ اور اصوات سے مرکب ہے اور یہ الفاظ اور اصوات سب قدیم ہیں اور ذات باری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہیں اور معتزلہ کا مذہب یہ ہے کہ خدا کے متکلم ہونے کے یہ معنی نہیں کہ کلام اس کی صفت ہے اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے بلکہ اس کے متکلم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے کلام کو کسی دوسری چیز مثلاً درخت یا لوح محفوظ یا فرشتہ یا نبی میں پیدا کردیتا ہے اس مسئلہ کی تفصیل ہم نے بخاری کی کتاب التوحید کی شرح میں کردی ہے وہاں دیکھ لی جائے۔ حضرات متکلمین اور اولیاء اور عارفین فرماتے ہیں کہ کلام در اصل ان حروف اور اصوات کا نام نہیں۔ بلکہ کلام اصل میں ما بہ افادۃ ما فی علمہ۔ کا نام ہے یعنی جس شئے کے ذریعے سے اپنے علم میں آئی ہوئی چیز کا افادہ اور افاضہ کی جائے تو اس کو کلام کہتے ہیں اور ہماری زبان سے نکلے ہوئے حروف اور اصوات یا کاغذ پر لکھے ہوئے نقوش یہ کلام خداوندی کے لیے بمنزلہ لباس کے ہیں۔ ہماری زبان سے نکلے ہوئے حروف اور الفاظ کو اور ہمارے ہاتھ کے لکھے ہوئے نقوش کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ عین کلام قدیم ہیں جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہیں جس طرح ہماری سخن اور ہماری آواز ہمارے تصورات یا صور ذہنیہ کی ترجمان ہے ان کا عین نہیں اسی طرح ہمارے حروف اور ہماری اصوات خداوند قدوس کے کلمات قدسیہ وغیبیہ کے ترجمان ہیں اور اس بےنشان کے ایک قسم کے نشان ہیں اور کلام الٰہی کی دلالات اور عبارات ہیں۔ صحابۂ کرام نے قرآن کریم کے مرتب ہوجانے کے بعد ان اواق منتشرہ کو جلادیا کہ جن میں آیات قرآنیہ لکھی ہوئی تھیں کیا کوئی شخص یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ جب صحابہ نے قرآن کو ایک مصحف میں جمع کرنے کے بعد قدیم نوشتوں کو چلایا تو کیا معاذ اللہ صحابۂ کرام نے عین کلام خداوندی کو جلادیا یا فنا کردیا۔ اللہ کا کلام قدیم اور غیر مخلوق ہے کسی مخلوق کی کیا مجال کہ قدیم اور غیر مخلوق کو جلادے بلکہ یہ کہا جائیگا کہ ہماری زبان سے نکلے ہوئے حروف اور الفاظ اور ہمارے قلم سے لکھے ہوئے نقوش جو اصل کلام قدیم کا آئینہ اور مظہر ہیں جن کے پردے میں کلام قدیم کا جلوہ نظر آتا ہے وہ جلادئیے گئے آئینہ کے جل جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس چیز کا عکس آئینہ میں پڑ رہا ہے وہ شئی بھی جل جائے۔ اللہ جل شانہ کی ذات بابرکات صورت اور شکل سے پاک اور منزہ ہے مگر قیامت کے دن لوگ اس بےچون و چگون ذات کو صورت کے پردہ اور لباس میں دیکھیں گے اسی طرح اللہ کا کلام بےچون وچگون ہے اور حروف اور اصوات سے پاک ہے مگر اس کا ظہور اور اس کا جلوہ حروف اور الفاظ کے لباس اور پردہ میں ہوتا ہے۔ اللہ کا کلام انسان کی زبان سے سنا جائے یا پلیٹوں سے سنا جائے یا کاغذ پر لکھا ہوا دیکھا جائے تو یہی کہا جائیگا کہ کلام کی حقیقت سب جگہ ایک ہے مگر ہر جگہ صورت اور لباس بدلا ہوا ہے لہذا نہ تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مختلف صورتیں اور مختلف قسم کے لباس اس اصل حقیقت کا بالکل عین ہیں اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا غیر ہیں تمام متکلمین اور سلف صالحین کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ کا جو کلام انسان کی زبان سے سنا جائے اس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ایسا کہنا ہرگز ہر گز جائز نہیں یہ جو کچھ سنا جارہا ہے وہ بلاشبہ اللہ کا کلام ہے جو انسانی حروف اور اصوات کے پردہ میں ظاہر ہورہا ہے دم مزن چوں در عبارت نایدست : آن مگو چوں در اشارت ناید است عارف جامی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں شنید آنکہ کلامے نے بآواز : معانی در معانی راز در راز نہ آگاہی از و کام وزباں را : نہ ہمراہی بہ او نطق و بیاں را 2 ۔ اہلسنت والجماعت کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ آخرت میں مومنین حق تعالیٰ کو بلا کیف اور بلا جہت کے دیکھیں گے اور حق تعالیٰ کے فضل وکرم سے اہل ایمان کو دیدار کی نعمت نصیب ہوگی۔ چناچہ اس عقیدہ پر کتاب اور سنت اور اجماع امت سے کافی دلائل بیان کئے گئے ہیں تفصیل کے ساتھ علم کلام کی کتابوں میں مذکور ہیں اور مختصراً بقدر ضرورت ہم آیت لا تکدرہ الابصار۔ کی تفسیر میں ان کا ذکر کرچکے ہیں اور معتزلہ اور ان کے پیرو جنت میں بھی دیدار الٰہی کے منکر ہیں اور اس کو محال قرار دیتے ہیں اور اس آیت (لن ترانی) سے دنیا اور آخرت میں نفی رویت پر استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لن نفی تائید کے لیے وضع کیا یگیا ہے اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ لفظ لن کلام عرب میں نفی تاکید کے لیے وضع کیا گیا ہے نہ کہ نفی تایید کے لیے اور اگر بالفرض یہ لفظ نفی تایید کے لیے بھی ہو تو نفی تاکید کے اور اگر بالفرض یہ لفظ نفی تایید کے لیے بھی ہو تو نفی تایید باعتبار دنیا کے ہے نہ باعتبار آخرت کے اس لیے کہ آخرت میں مومنین کا خدا تعالیٰ کو دیکھنا آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ اور اجماع صحابہ وتابعین سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے حق میں فرمایا ہے ولن یتمنوہ ابداً یہ لوگ کبھی بھی موت کی آرزو نہ کریں گے حالانکہ وہ قیامت کے دن موت کی تمنا کریں گے۔ کما قال تعالیٰ ونادوا یملک لیقض علینا ربک وقال تعالیٰ یلیتھا کانت القاضیۃ۔ وغیرہ ذالک من الایات۔ معلوم ہوا کہ یہ دعوی کرنا کہ حرف لن لغت میں تایید اور دوام کے لیے غلط ہے۔ بلکہ اہلسنت والجماعت اس آیت سے رویت باری تعالیٰ کا جواز اور امکان ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ آیت یعنی رب ارنی انظر الیک اے اللہ مجھے اپنی ذات بابرکات دکھلا دے تاکہ تجھے ایک نظر دیکھ سکوں۔ معتزلہ پر حجت ہے اس لیے کہ اگر خدا تعالیٰ کی رویت ناممکن اور محال ہوتی تو موسیٰ (علیہ السلام) جیسے اولو العزم اس کا سوال ہی کیوں کرتے یہ بات کیسے قیاس میں آسکتی ہے کہ نبی معصوم خدا تعالیٰ سے ناممکن اور محال کی درخواست کرے۔ اس موقعہ پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے کافر بیٹے کی نجات کے لیے دعا کی تو خدا تعالیٰ نے ان کی نسبت یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ انی اعظک ان تکون من الجھلین۔ (اے نوح میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم نادانوں جیسی بات نہ کرو) بخلاف اس کے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب خدا تعالیٰ سے رویت کی درخواست کی تو خدا نے ان کو کسی قسم کا عتاب نہیں فرمایا بلکہ ان کو تسلی دی اور یہ فرمایا کہ تو مجھ کو ہرگز نہ دیکھ سکے گا یعنی میری رویت سراپا عطمت وہیبت کا اس دار فانی میں تجھ سے تحمل نہ ہوسکے گا۔ اور بعد ازاں رویت کو ایک امر جائز الوقوع پر معلق کیا اور تسلی کے لیے یہ فرمایا کہ اے موسیٰ تو پہاڑ کی طرف نظر کر اگر میری تجلی کے بعد وہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو ممکن ہے کہ تو بھی دیکھ سکے اور ظاہر ہے کہ پہاڑ کا اپنی جگہ پر قائم رہنا ممکن ہے اور جو چیز ممکن پر موقوف اور معلوق ہوگی وہ بھی ممکن ہوگی معلوم ہوا کہ لن ترانی سے مراد یہ ہے کہ اس دار فانی میں تو مجھے نہیں دیکھ سکے گا۔ اس دار فانی میں چشم فانی سے کوئی بشر مجھ کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا بلکہ آخرت میں چشم باقی سے میرے دیدار کا تحمل کرسکتے گا۔ کیا معتزلہ اپنی عقل کو موسیٰ (علیہ السلام) کی عقل سے زائد جانتے ہیں کہ معتزلہ کو تو خدا تعالیٰ کے متعلق ممکن اور محال کا علم ہوا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کا علم نہ ہو۔ اگر رویت باری فی نفسہ محال تھی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کا سوال کیوں کیا معتزلہ کے پاس بجز اس کے کوئی جواب نہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کی رویت کا محال ہونا معلوم نہ تھا لیکن ان بندگان خدا سے کوئی پوچھے کے جب موسیٰ (علیہ السلام) کو باوجود رسول اور کلیم ہونے کے رویت خداوندی کا محال ہونا معلوم نہ ہو تو تم کو کس طرح معلوم ہوگیا۔ آخرتم نے اس بات کو اپنی عقل ہی سے معلوم کیا۔ کیا اس خدا کے اس برگزیدہ نبی کی عقل تمہاری عقل سے کم تھی پس موسیٰ (علیہ السلام) کے سوال سے معلوم ہوا کہ دنیا میں رویت باری عقلاً ممکن ہے اور اللہ تعالیٰ کے جواب لن ترانی سے معلوم ہوا کہ شرعاً ممتنع الوقوع ہے۔ نیز لن ترانی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کسی بصر میں یہ قابلیت اور صلاحیت نہیں کہ دنیا میں خدا کو دیکھ سکے ہاں اگر لن اری بصیغہ مجہول ہوتا تو ممکن تھا کہ یہ خیال کیا جاسکے کہ خدا کی رویت نہیں ہوسکتی اور آیت لا تدرکہ الابصار۔ یعنی آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ میں " ادراک " کی نفی کی گئی ہے جس کے معنی دریافت کرنے کے ہیں رویت کی نفی نہیں کی گئی ادراک (کسی چیز کو پالینا) اور چیز ہے اور رویت (کسی چیز کو دیکھ لینا) اور چیز ہے اگر بالفرض ادراک سے رویت ہی کے معنی مراد لیے جائیں تو اس سے ظاہری اور عادی طریقہ پر دیکھنے کی نفی مراد ہوگی اور مطلب یہ ہوگا کہ ظاہری طور پر اور بطریق عادت کوئی خدا کو نہیں دیکھ سکتا جب تک خدا تعالیٰ اپنے آپ کو ظاہر نہ کرے کوئی اس کو نہیں دیکھ سکتا جیسا کہ انہ یراکم ھو وقبیلہ من حیث لا ترونھم سے شیاطین اور جنات کے دیکھنے کی نفی کی گئی ہے سو اس کا مطلب یہی ہے کہ عادی طریقہ اور ظاہر طور پر کوئی شخص شیطان اور جنات کو نہیں دیکھ سکتا جب تک خدا تعالیٰ بطور خرق عادت اپنے کسی برگزیدہ اور مقبول بندہ کو نہ دکھائے تو جنات اور شیاطین اور فرشتوں کو کوئی شخص خود بخود ظاہری طور پر نہیں دیکھ سکتا مگر بطور خرق عادت انبیاء اور بعض اولیاء کے لیے شیاطین اور ملائکہ کا دیدار بچشم سر ثابت ہے اور مرتے وقت تو کافر بھی فرشتہ اور شیطان کو دیکھ لیتا ہے۔ 3 ۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جو الواح یعنی تختیاں عطاء کی گئیں وہی توریب پر مشتمل تھیں یعنی انہی میں توریت لکھی ہوئی تھی کما قال تعالیٰ ولقد اتینا موسیٰ الکتب من بعد ما اھلکنا القرون الاولی بصائر للناس اور بعض کہتے ہیں کہ یہ تختیاں توریت کے علاوہ تھیں جو نزول توریب سے پہلے عطا ہوئی تھیں (تفسیر ابن کثیر ص 246 ج 2) ان الواح (تختیوں) کی تعداد کے بارے میں بھی اختلاف ہے بعض یہ کہتے ہیں کہ وہ دس تھیں اور بعض کہتے ہیں سات تھیں اور بعض کہتے ہیں کہ دو تھیں اور الواح جو صیغہ جمع کا ہے اس سے مافوق الواحد مراد ہے (تفسیر روح المعانی ص 51 ج 9) نیز اس میں اختلاف ہے کہ وہ تختیاں کس چیز کی تھیں بعض کہتے ہیں کہ سبز زمرد کی تھیں اور بعض کہتے ہیں کہ ٹھوس پتھر کی تھیں اور بعض کہتے ہیں کہ جنت کی بیری کی خشک لکڑی کی تھیں جیسا کہ بعض ضعیف روایات سے معلوم ہوتا ہے علامہ آلوسی (رح) تعالیٰ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے کہ وہ بیری کی لکڑی کی تھیں (روح المعانی ص 51 ج 9) بہرحال جس چیز کی بھی ہوں وہ آسمان سے ہی لکھی ہوئی نازل ہوئی تھیں جیسا کہ وکتبنا لہ سے ظاہر ہوتا ہے رہا یہ امر کہ ان کی کتابت خود دوست قدرت نے کی تھی یا بحکم خداوندی کسی فرشتے نے کی تھی اس بارے میں سند صحیح سے کوئی بات ثابت نہیں اس بارے میں جس قدر روایتیں کتب تفسیر میں مذکور ہیں وہ اسرائیلیات ہیں اور حدیث میں ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں کی نہ تم تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو لہذا آج کل کے مصنفین نے جو قاعدہ بنا لیا ہے کہ جو اسرائیلی روایت ہو وہ بالکل غلط اور ناقابل اعتبار ہے۔ یہ ان کا بنایا ہوا قاعدہ غلط ہے جو احادیث صحیحہ کے خلاف ہے حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ بنی اسرائیل سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں اگر کوئی اسرائیلی روایت قرآن اور حدیث کے مطابق ہوگی تو اس کی تصدیق کی جائیگی اور جو قرآن اور حدیث اور اصول اسلام کیخلاف ہوگی اس کی تکذیب کیجائیگی اور جو اسرائیلی روایت قرآن اور حدیث کے نہ موافق ہو اور نہ مخالف ہو بلکہ ایسی شئے کے متعلق ہو کہ جس کے بیان سے کتاب وسنت ساکت ہیں تو ایسی اسرائیلی روایت کی بابت ہمیں حدیث نبوی میں یہ حکم آیا ہے کہ ایسی روایت کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو بلکہ سکوت کرو لہذا الواح توریت کے بارے میں جب اسرائیلی روایت شیخ جلال الدین سیوطی (رح) تعالیٰ نے تفسیر در منثور میں ذکر کی ہیں وہ حسب ارشاد نبوی حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج ذکر کی ہیں اور ان کا حکم یہ ہے لا تصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبوھم یعنی ان پر سکوت واجب ہے اور زبان طعن وتشنیع کا دراز کرنا ناجائز ہے۔ چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد : میلش اندر طعنۂ پاکاں برد
Top