Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 29
قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ١۫ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ ادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ؕ۬ كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَؕ
قُلْ : فرما دیں اَمَرَ : حکم دیا رَبِّيْ : میرا رب بِالْقِسْطِ : انصاف کا وَاَقِيْمُوْا : اور قائم کرو (سیدھے کرو) وُجُوْهَكُمْ : اپنے چہرے عِنْدَ : نزدیک (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّادْعُوْهُ : اور پکارو مُخْلِصِيْنَ : خالص ہو کر لَهُ : اسکے لیے الدِّيْنَ : دین (حکم) كَمَا : جیسے بَدَاَكُمْ : تمہاری ابتداٗ کی (پیدا کیا) تَعُوْدُوْنَ : دوبارہ (پیدا) ہوگے
تو کہہ دے کہ میرے رب نے حکم دیا ہے انصاف کا اور سیدھے کرو اپنے منہ ہر نماز کے وقت اور پکارو اس کو خالص اس کے فرمانبردار ہو کر جیسا تم کو پہلے پیدا کیا دوسری بار بھی پیدا ہو گے
دوسری آیت میں رشاد فرمایا (آیت) قُلْ اَمَرَ رَبِّيْ بالْقِسْطِ ، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف ننگے طواف کے جائز کرنے کی غلط نسبت کرنے والے جاہلوں سے آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ قسط کا حکم دیا کرتے ہیں، قسط کے اصلی معنی انصاف و اعتدال کے ہیں، اور اس جگہ قسط سے مراد وہ عمل ہے جو افراط وتفریط سے خالی ہو یعنی نہ اس میں کوتاہی ہو اور نہ مقررہ حد سے تجاوز ہو، جیسا کہ تمام احکام شرعیہ کا یہی حال ہے، اس لئے لفظ قسط کے مفہوم میں تمام عبادات اور طاعات اور عام احکام شرعیہ داخل ہیں (روح المعانی)
اس آیت میں قسط یعنی انصاف و اعتدال کا حکم بیان کرنے کے بعد ان لوگوں کی گمراہی اور بےراہی کے مناسب احکام شرعیہ سے دو حکم خصوصیت کے ساتھ بیان فرمائے گئے، ایک (آیت) ۣوَاَقِيْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ ، اور دوسرا وَّادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ، پہلا حکم انسان کے ظاہری افعال سے متعلق ہے، اور دوسرا اس کے قلب اور باطن سے تعلق رکھتا ہے، پہلے حکم میں لفظ مسجد اکثر مفسرین کے نزدیک بمعنی سجدہ و عبادت آیا ہے، اور معنی یہ ہیں کہ ہر عبادت و نماز کے وقت اپنا رخ سیدھا رکھاکرو، اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ نماز کے وقت اپنا رخ سیدھا ٹھیک قبلہ کی طرف کرنے کا اہتمام کرو، اور رخ سیدھا کرنے کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اپنے ہر قول و فعل اور ہر عمل میں اپنا رخ اپنے رب کے حکم کے تابع رکھو، اس سے ادھر ادھر نہ ہونے پاوے، اس معنی کے لحاظ سے یہ حکم صرف نماز کے لئے خاص نہیں، بلکہ تمام عبادات و معاملات پر حاوی ہے۔
اور دوسرے حکم کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس طرح پکارو کہ عبادت خالص اسی کی ہو اس میں کسی دوسرے کی شرکت کسی حیثیت سے نہ ہو، یہاں تک کہ شرک خفی یعنی ریاء ونمود سے بھی پاک ہو۔
ان دونوں حکموں کو ساتھ ذکر کرنے سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ انسان پر لازم ہے کہ اپنے ظاہر و باطن دونوں کو احکام شریعت کے مطابق درست کرے، نہ صرف ظاہری اطاعت بغیر اخلاص کے کافی ہے، اور نہ محض اخلاص باطنی بغیر ظاہری اتباع شریعت کے کافی ہوسکتا ہے، بلکہ ہر شخض پر لازم ہے کہ اپنے ظاہر کو بھی شریعت کے مطابق درست کرے اور باطن کو بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص رکھے، اس سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوتی ہے جو شریعت و طریقت کو مختلف طریقے سمجھتے ہیں، اور خیال کرتے ہیں کہ طریقت کے مطابق باطن کو درست کرلینا کافی ہے، گو شریعت کے خلاف کرتے رہیں، یہ کھلی گمراہی ہے۔
آخر آیت میں ارشاد فرمایا كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہیں اول پیدا فرمایا تھا اسی طرح قیامت کے روز دوبارہ تمہیں زندہ کرکے کھڑا کردیں گے، اس کی قدرت کامل کے آگے یہ کوئی مشکل چیز نہیں، اور شاید اسی آسانی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے یعیدکم کے بجائے تَعُوْدُوْنَ فرمایا کہ دوبارہ پیدا ہونے کے لئے کسی خاص عمل وسعی کی ضرورت نہیں (روح)
اس جملہ کو اس جگہ لانے کا ایک فائدہ بھی ہے کہ احکام شرعیہ پر پوری طرح قائم رہنا انسان کے لئے آسان ہوجائے، کیونکہ عالم آخرت اور قیامت اور اس میں اچھے برے اعمال کی جزاء و سزاء کا تصور ہی وہ چیز ہے جو انسان کے لئے ہر مشکل کو آسان اور ہر تکلیف کو راحت بنا سکتی ہے، اور تجربہ شاہد ہے کہ جب تک انسان پر یہ خوف مسلط نہ ہو کوئی وعظ وپند اس کو سیدھا کرسکتا ہے، اور نہ کسی قانون کی پابندی اس کو جرائم سے روک سکتی ہے۔
Top