Maarif-ul-Quran - Maryam : 34
ذٰلِكَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ١ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم قَوْلَ : بات الْحَقِّ : سچی الَّذِيْ فِيْهِ : وہ جس میں يَمْتَرُوْنَ : وہ شک کرتے ہیں
یہ مریم کے بیٹے عیسیٰ ٰ ہیں (اور یہ) سچ بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں
قول مبرم و فیصلہء محکم دربارۂ حقیقت عیسیٰ بن مریم صلی اللہ تعالیٰ علیٰ نبینا وعلیہما وبارک و سلم قال اللہ تعالیٰ ۔ ذٰلک عیسیٰ ابن مریم۔۔۔ الیٰ ۔۔۔ والینا یرجعون۔ یہاں تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا قصہ تفصیل سے بیان فرمایا تاکہ اصل حقیقت واضح اور منکشف ہوجائے۔ اب آگے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں یہود اور نصاریٰ کے اختلاف کا فیصلہ فرماتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں، یہ ہیں عیسیٰ پسر مریم جو فقط عورت سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ فقط مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں ان کا کوئی باپ نہیں۔ ان کی صحیح شان اور صفت وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) وہ نہیں جن کو عیسائی خدا یا خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور نہ وہ ولد الزنا ہیں جیسا کہ یہود کہتے ہیں۔ میں بالکل سچی بات بتلا رہا ہوں جس میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں۔ یہود عیسیٰ (علیہ السلام) کو ولد الزنا اور جھوٹا اور جادوگر کہتے ہیں اور نصاریٰ میں کوئی ان کو اللہ اور کوئی ان کو ابن اللہ کہتا ہے مگر وہ حقیقت میں اللہ کا بندہ ہے اور اس کا نبی ہے اور روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہے۔ سچی اور حق بات یہ ہے جو بتلا دی گئی۔ اور اس کے سوا سب جھوٹ ہے۔ گزشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو ثابت کیا اب آگے کی آیت میں نصاریٰ کے عقیدۂ ابنیت کا رد فرماتے ہیں۔ اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ اپنے لیے کوئی فرزند بنائے۔ اللہ اس سے پاک ہے اس لیے کہ یہ اس کے لیے نقص اور عیب ہے۔ خدا تعالیٰ سب حاجتوں اور خواہشوں سے پاک ہے اور بیٹا باپ کے ہمجنس ہوتا ہے اور خدا بےمثل اور بےچون و چگون ہے۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف اتنا کہہ دیتا ہے کہ ہوجا سو وہ کام ہوجاتا ہے۔ بھلا ایسے قادر مطلق کو بیٹے اور بیٹی کی کیا ضرورت ہے۔ اور اس کو بغیر باپ کے پیدا کرنا کیا مشکل ہے اور منجملہ ان باتوں کے جو عیسیٰ (علیہ السلام) نے ماں کی گود میں لوگوں سے کیں ایک بات یہ تھی کہ لوگوں کو اس بات کی خبر دی کہ تحقیق اللہ میرا پروردگار ہے اور تم سب کا پروردگار ہے پس تم سب اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے جو اس راہ پر چلے گا وہ ہدایت پائے گا۔ پس اس حقیقت حال کے واضح ہوجانے کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جماعتیں آپس میں مختلف ہوگئیں۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا صحیح حال ظاہر ہوچکا ہے جس میں اختلاف کی گنجائش نہیں اس لیے شیر خوارگی کی حالت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خارق عادت کلام سے یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ خدا کے برگزیدہ بندے اور رسول برحق تھے۔ معاذ اللہ خدا یا خدا کا بیٹا نہ تھے۔ خدا کا مولود اور شیر خوار ہونا عقلا محال اور ناممکن ہے اور معاذ اللہ نہ وہ ولد الزنا تھے اور ان کی والدہ ماجدہ تہمت سے بالکل پاک اور بری تھیں مگر باوجود اس کے یہود تو یہ کہتے ہیں کہ وہ کاذب اور ساحر اور ولد الزنا تھا اور گہوارہ میں جو کلام کیا وہ سب جادو کا اثر تھا۔ اور دعویٰ نبوت کے بعد جس قدر معجزات دکھلائے وہ سب جادو تھے۔ اور نصاریٰ میں بعض تو یہ کہتے ہیں کہ وہ خدا تھے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ خدا کے فرزند تھے اور بعض نصاریٰ اہل اسلام کی طرح ان کو خدا کا بندہ اور رسول مانتے ہیں اور زیادہ تر نصاریٰ میں تین فرقے ہیں، نسطوریہ اور یعقوبیہ اور ملکانیہ۔ فرقہء نسطوریہ تو حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا بتاتا ہے کہ آسمان سے آیا تھا۔ باپ نے پھر اس کو پھر آسمان پر بلا لیا اور اوپر اٹھا لیا۔ اور فرقہء یعقوبیہ یہ کہتا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ تھا بعینیہٖ خدا آسمان سے اترا اور پھر آسمان پر چڑھ گیا۔ اور فرقہء ملکانیہ یہ کہتا ہے کہ مسیح بن مریم (علیہ السلام) تین خداؤں میں سے ایک خدا تھا اور نصاریٰ کا ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) خدا کے بندے اور اس کے رسول برحق تھے۔ اور صحیح نصرانی اور عیسائی یہی فرقہ ہے۔ اور یہی قول حق ہے جس کی قرآن اور حدیث نے مسلمانوں کو ہدایت کی اور یہی تمام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے اور نصاریٰ کا یہ فرقہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بندہ اور رسول برحق مانتا تھا۔ نصاریٰ کے تمام فرقوں میں یہی فرقہ حق پر تھا جو توحید کا قائل تھا۔ اور تثلیت کا منکر تھا۔ پس ہلاکت اور بربادی ہے ان کافروں پر جو اللہ پر افتراء کرتے ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا بتاتے ہیں، سو ایسے کافروں کے لیے شدید عذاب ہے۔ بڑے دن کی حاضری کے وقت یعنی قیامت کے دن اور یہ کافر جو آج دنیا میں حق سے اندھے اور بہرے اور گونگے بنے ہوئے ہیں قیامت کے دن کیا ہی خوب سننے والے اور کیا ہی خوب دیکھنے والے ہوں گے۔ جس دن ہمارے پاس آئیں گے اس دن آنکھیں بھی کھل جائیں گی اور کان بھی خوب کھل جائیں گے۔ لیکن یہ ظالم لوگ آج تو گمراہی میں ہیں یعنی یہ کافر آج دنیا میں اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں نہ حق کو سنتے ہیں نہ حق کو دیکھتے ہیں۔ مگر جب قیامت میں ہمارے سامنے آئیں گے تو اس وقت سننے والے اور خوب دیکھنے والے ہوں گے لیکن اس وقت کا سننا اور دیکھنا کچھ فائدہ نہ دے گا۔ اور اے نبی آپ ﷺ ان کو حسرت کے دن سے ڈرائیے یعنی قیامت کے دن سے ڈرائیے جس روز نیک و بد سب ہی پچھتائیں گے اور حسرت میں مبتلا ہوں گے برے آدمی تو اپنی برائیوں پر حسرت کریں گے کہ ہم نے یہ برے کام کیوں کیے اور نیک لوگ اس بات پر حسرت کریں گے کہ ہم نے نیکیاں زیادہ کیوں نہ کیں۔ لہٰذا آپ ﷺ ان لوگوں کو اس حسرت کے دن سے ڈرائیے جب کہ موت کو سب کے سامنے ذبح کر کے اہل جنت اور اہل جہنم کے خلود اور دوام کا اخیر فیصلہ کردیا جائے گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ موت کو چت کبرے مینڈھے کی شکل میں لا کر جنت اور جہنم کے درمیان میں ذبح کیا جائے گا۔ اور لوگ دیکھتے ہوں گے۔ اور فریقین یعنی اہل جنت اور اہل دوزخ کو خلود اور دوام کا حکم سنا دیا جائے گا۔ تاکہ اہل جنت کو معلوم ہوجائے کہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں خلود اور دوام ہے اور کفار کو معلوم ہوجائے کہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں خلود اور دوام ہے موت اور فنا نہیں۔ رواہ البخاری و مسلم و غیرہما۔ سنن ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب موت کے مینڈھے کو پل صراط پر کھڑا کر کے اہل جنت اور اہل دوزخ کو آواز دی جائے گی تو اہل جنت تو ڈرتے ڈرتے نظر اٹھا کر دیکھیں گے ان کو ڈر ہوگا کہ کہیں جنت سے نکلنے کا حکم تو نہیں ہوگا۔ اور اہل دوزخ خوش ہو کر دیکھیں گے کہ شاید ہم کو اس جگہ سے خروج اور رہائی کا حکم ہوجائے تو پھر سب کے سامنے موت ذبح کی جائے گی اور یہ اعلان کردیا جائے گا۔ کلاھما خلود فیما تجدون لا موت فیہ ابدا۔ ہر ایک اپنے اپنے ٹھکانہ میں ہمیشہ رہے گا کسی پر کبھی بھی موت نہ آئے گی۔ (فتح الباری صفحہ 362 ج 11) اور وہ لوگ آج دنیا میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور یہ لوگ یوم آخرت اور یوم حسرت پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن جب وہ دن سامنے آئے گا تو سوائے حسرت کے کچھ نظر نہ آئے گا۔ حضرت شاہ عبدالقادر (رح) لکھتے ہیں جب تک حشر کا دن ہے۔ مسلمان دوزخ سے نکل نکل کر بہشت میں جاویں گے۔ تب تک کافر بھی توقع میں ہوں گے۔ پھر موت کو مینڈھے کی صورت میں لا کر بہشت اور دوزخ کے بیچ سب کو دکھا کر ذبھ کریں گے اور پکار دیں گے کہ بہشتی بہشت میں اور دوزخی دوزخ میں رہ پڑے ہمیشہ کو وہ دن ہے کہ کافر ناامید ہوں گے۔ (موضح القرآن) مطلب یہ ہے کہ اب تک کافروں کو بھی امید تھی کہ شاید گنہگار مسلمانوں کی طرح ہم بھی کسی وقت دوزخ سے نکل جائیں گے لیکن جب موت کو لا کر سب کے سامنے ذبح کردیا جاے گا تو اس وقت کافر بالکل ناامید ہوجائیں گے اور حسرت سے ہاتھ ملیں گے لیکن اب پچھتانے سے کیا فائدہ۔ وقت گزر چکا۔ جمہور مفسرین یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں ” یوم الحسرۃ “ سے وہ وقت مراد ہے کہ جس وقت موت کو مینڈھے کی شکل میں لا کر سب کے سامنے ذبح کیا جائے گا۔ صحیحین میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن موت ایک کبود (چت کبرے) مینڈھے کی صورت میں لائی جائے گی۔ پھر دوزخ اور بہشت کے درمیان اس کو کھڑا کیا جائے گا۔ پھر ایک منادی یہ ندا کرے گا اے اہل جنت ! اس کی یہ آواز سن کر جنتی اپنی گردن اور اپنا سر اوپر اٹھا کر دیکھیں گے۔ وہ کہے گا کہ تم اس کو پہچانتے ہو ؟ جنتی جواب دیں گے ہاں یہ موت ہے اور وہ سب اسکو دیکھیں گے۔ یعنی خوب پہچان لیں گے کہ یہ موت ہے۔ پھر منادی ندا کرے گا کہ اے اہل نار ! یہ آواز سن کر دوزخی اپنی گردن اٹھا کر دیکھیں گے۔ وہ منادی کہے گا کہ تم اس کو پہچانتے ہو ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں یہ موت ہے اور وہ سب اس کو دیکھ لیں گے۔ پھر اس مینڈھے کو جنت اور دوزخ کے درمیان سب کے سامنے ذبح کردیا جائے گا پھر منادی ندا کرے گا کہ اے اہل جنت ! اب ہمیشہ ہمیشہ رہو کبھی تم کو موت نہیں اور اے دوزخیو ! ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہو کبھی تم کو موت نہیں پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ و انذرھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامروھم فی غفلۃ و ھم لا یوء منون پھر آپ (علیہ السلام) نے اپنے دست مبارک سے دنیا کی طرف اشارہ فرمایا۔ اور یہی مضمون صحیحین میں عبداللہ بن عمرؓ کی روایت میں آیا ہے۔ اس وقت جنتیوں کو خوشی پر خوشی ہوگی اور دوزخیوں کو غم پر غم ہوگا۔ ترمذی کی روایت میں اتنا اور زیادہ ہے کہ اگر کوئی خوشی سے مرتا تو جنتی مرجاتے اور اگر کوئی غم سے مرتا تو دوزخی مرجاتے (مگر موت کے ذبح ہوجانے کے بعد تو کسی کو موت نہیں) اسی لیے ایک روایت میں ہے کہ موت کے ذبح ہوجانے کے بعد دوزخ اور جنت کے درمیان ایک پکارنے والا پکار کر یہ کہے گا : یا اھل الجنۃ ھو الخلود ابد الاٰبدین و یا اھل النار ھوا الخلود ابدا الاٰبدین (تفسیر ابن کثیر ص 122 ج 3) اے اہل جنت ! اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خلود اور دوام ہے اور اے اہل دوزخ ! اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہنا ہے۔ اہل ایمان ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ اب کبھی جنت سے نہ نکلیں گے۔ اور کافر ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ غرض یہ کہ موت کے ذبح سے اہل جنت اور اہل نار کو یہ اطلاع دینی مقصودد ہوگی کہ اب ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔ اس ندا کو سن کر اہل جنت اس قدر خوش ہوں گے کہ اگر کوئی خوشی سے مرجاتا تو وہ مرجاتے اور اہل دوزخ غم اور حسرت سے ایسی چیخ ماریں گے کہ اگر کوئی چیخ سے مرجاتا تو مرجاتے۔ اس لیے تمام اہل سنت والجماعۃ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ کافر ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے کبھی بھی جہنم سے نہیں نکلیں گے جیسا کہ اسی مسئلہ کی تفصیل پارہ ہشتم میں النار مثوٰ کم خٰلدین فیھآ الا ما شآاللٰہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ نیز سورة ہود میں خٰلدین فیھا ما دامت السمٰوٰت والارض الا ما شآء ربک کی تفسیر میں بھی اسی مسئلہ کی تحقیق گزر چکی ہے۔ امام قرطبی (رح) اپنی تفسیر میں ان احادیث کو ذکر کر کے فرماتے ہیں۔ و قد ذکرنا ذٰلک فی کتاب التذکرۃ و بینا ان الکفار مخلدون بھٰذہٖ الاحادیث والاٰیات ردا علی من قال ان صفۃ الغضب تنقطع و ان ابلیس و من تبعہ من الکفرۃ کفر عون و ھامان و قارون و اشباھھم یدخلون الجنۃ (تفسیر قرطبی ص 109 ج 11) ہم نے تفصیل کے ساتھ اس قسم کی احادیث کو اپنی کتاب التذکرۃ بامور الآخرۃ میں ذکر کردیا ہے۔ اور آیات اور احادیث سے یہ بات واضح کردی ہے کہ کفار ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور ان آیات اور احادیث کو ہم نے ان لوگوں کے رد کے لیے ذکر کیا ہے جن کا یہ گمان ہے کہ حق تعالیٰ کی صفت غضب منقطع اور ختم ہوجائے گی اور ابلیس اور اس کی پیروی کرنے والے کافر جیسے فرعون اور ہامان اور قارون جیسے جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ قال القرطبی و فی ھذہ الاحادیث التصریح بان خلود اھل النار فیھا لا الی غایۃ امدو اقامتھم فیھا علی الدوام بلا موت و لا حیاۃ نافعۃ ولا راحۃ کما قال تعالیٰ لا یقضیٰ علیھم فیموتوا و لا یخفف عنھم من عذابھا و قال تعالیٰ کلمآ ارادوا فیھا فمن زعم انھم یخرجون منھا و انھا تبقی خالیۃ او انھا تفنی و تذول فھو خارج عن مقتضی ما جاء بہ الرسول و اجمع علیہ اھل السنۃ۔ (فتح الباری باب صفۃ الجنۃ و النار من کتاب الرقاق) امام قرطبی (رح) فرماتے ہیں کہ ان احادیث میں (یعنی ذبح موت کی احادیث میں) اس کی تصریح ہے کہ دوزخیوں کے عذاب کی کوئی حد اور انتہا نہیں کافر ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ بغیر موت کے اور بغیر نافع زندگی کے اور بغیر راحت و آرام کے جیسا کہ حق تعالیٰ نے قرآن میں خبر دی کہ کافروں پر کبھی موت نہیں آئے گی اور نہ وہ کبھی جہنم سے نکلیں گے۔ اور جس شخص نے یہ گمان کیا کہ دوزخی کچھ روز کے بعد دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور دوزخ خالی رہ جائے گی۔ یا یہ گمان کیا کہ دوزخ فنا ہوجائے گی تو ایسا گمان کرنے والا شخص اس شریعت کے دائرہ سے خارج ہے کہ جس کو محمد ﷺ لے کر آئے نیز یہ شخص اہل سنت والجماعت کے اجماعی عقیدہ سے باہر ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ جس دن موت ذبح کی جائے گی وہ دن کافروں کے حق میں انتہائی حسرت کا ہوگا اور مزید برآں حسرت کا ایک سبب یہ ہوگا کہ قیامت کے دن ہر نفس کو ایک گھر جنت کا اور ایک گھر جہنم کا دکھایا جائے گا اور پھر یہ کہا جائے گا کہ اے کافرو ! اگر تم نیک عمل کرتے تو جنت کے اس گھر میں جاتے اور اے مسلمانو ! اگر تم کفر کرتے تو دوزخ کے اس گھر میں جاتے۔ اللہ کا احسان ہوا کہ اس نے تم کو ایمان اور عمل صالح کی توفیق دی۔ یہ سن کر کافروں پر حسرت اور غم چھا جائے گا۔ یہ عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے جو وعظ میں فرمایا کرتے تھے۔ اب کافروں کے اس حسرت کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ تحقیق ہم ہی وارث ہوں گے، اس زمین کے اور جو اس پر آباد کیا ہے یعنی زمین کے جملہ ساکنین پر آخر ایک دن موت آنی ہے سب مرجائیں گے۔ کسی کا ملک اور کسی کی ملک باقی نہ رہے گی۔ اور صرف ہم اکیلے باقی رہ جائیں گے اور ہم ہی ان کے مال و متاع کے وارث ہوں گے۔ اور وہ آخرت میں ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔ پھر ہم ان کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دیں گے۔ لطائف و معارف 1۔ تمام اہل اسلام اور تمام عیسائی اس بات پر متفق ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے محض اللہ کی قدرت سے پیدا ہوئے اور یہود یہ کہتے ہیں کہ وہ عام انسانوں کی طرح مرد اور عورت سے پیدا ہوئے تھے مگر ان کا تولد ناجائز تھا اور یہود ان کو معاذاللہ ولد الزنا اور ولد الحرام بتاتے ہیں۔ اور ملحد اور زندیق اور مرزائی اور قادیانی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ عام انسانوں کی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) بھی مرد کے نطفہ سے پیدا ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت مریم (علیہ السلام) کا یوسف نجار سے نکاح تو ہوگیا تھا مگر رخصتی نہیں ہوئی تھی اور ایسی حالت میں میاں بیوی کا جمع ہونا شرعا ممنوع نہ تھا۔ ایسے وقت میں اگر اولاد پیدا ہو تو وہ جائز اولاد متصور ہوگی۔ مگر خلاف رسم ہونے کی وجہ سے یہ بات معیوب اور موجب خجالت و ندامت سمجھی جاتی تھی۔ حضرت مریم (علیہ السلام) پر یہودیوں کا اتہام اسی وجہ سے تھا۔ ورنہ یوسف نجار شرعا مریم (علیہ السلام) کے شوہر تھے غرض یہ کہ ملاحدہ اور زنادقہ کے نزدیک حضرت مسیح (علیہ السلام) یوسف نجار کے بیٹے تھے اور بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اور دلیل یہ بیان کرتے ہیں کہ اناجیل مروجہ سے یہ ثابت ہے کہ حضرت مریم (علیہ السلام) کے ساتھ یوسف نجار کا تعلق زوجیت کا تھا اور اسی تعلق سے اور بھی ان سے اولاد ہوئی۔ اور یوسف نجار مریم (علیہ السلام) صدیقہ کے شرعی شوہر تھے جیسا کہ اناجیل اور کتاب الاعمال کے مقامات ذیل میں صاف لکھا ہے کہ یسوع۔ یوسف کا بیٹا ہے اور یوسف مریم (علیہ السلام) کا شوہر ہے۔ دیکھو متی 16؍1، لوقا 23؍2، متی 55؍13، یوحنا 42؍6، اعمال 31؍2، و نامہ رومیاں 4؍1 اس قسم کے نام نہاد مسلمان جو خوارق عادت کے منکر ہیں۔ وہ بغیر باپ کے تولد کے قائل نہیں وہ اپنے مزعومات اور خیالات کے لیے انجیل کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ جواب : یہ سب غلط ہے اور الھاد اور زندقہ ہے۔ قرآن کریم نے متعدد مواضع میں حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) کی ولادت کے قصہ کو اس درجہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ نہ اس میں کسی تاویل کی گنجائش ہے اور نہ کسی احتمال کی گنجائش ہے۔ آیات قرآنیہ سے بصراحت و وضاحت یہ امر واضح ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بلا باپ کے پیدا ہوئے۔ 1۔ اس لیے کہ اس قصہ کا آغاز فتمثل لھا بشرا سویا سے ہوا جو دور تک چلا گیا۔ یہ تمام تفصیل اس بات کی صریح دلیل ہے کہ فرشتہ کی آمد محض اس لیے ہوئی تھی کہ وہ حضرت مریم (علیہ السلام) کو بلا سبب ظاہری من جانب اللہ ایک فرزند عطا کرے۔ یہ سن کر حضرت مریم (علیہ السلام) کو تعجب ہوا اور بولیں کہ لم یمسسنی بشر و لم اک بغیا یعنی میرا تو کسی مرد سے تعلق ہی نہیں نہ حلال کا اور نہ حرام کا نہ نکاح کا نہ زنا کا مجھے تو آج تک کسی مرد نے ہاتھ بھی نہیں لگایا پھر میرے بچہ کیسے ہوگا۔ فرشتہ نے جواب دیا کہ یوں ہی ہوگا یعنی بغیر باپ کے تجھ سے لڑکا پیدا ہوگا۔ بعد ازاں حضرت مریم (علیہ السلام) کی تسلی کے لیے فرشتہ نے کہا کہ یہ بات تیرے پروردگار کے لیے کوئی مشکل نہیں تو مطمئن رہ، پس اگر واقع میں حضرت مریم (علیہ السلام) کا کوئی شرعی شوہر تھا تو ان کو اس قدر گھبرانے اور ڈرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ورنہ منکوحہ عورت کو ولادت سے تہمت کا کیا ڈر۔ 2۔ نیز حضرت مریم (علیہ السلام) کے اضطراب میں فرشتہ کا یہ کہنا۔ ولنجعلہٓ اٰیۃ للناس تاکہ ہم اس مولود مسعود کو اپنی قدرت کی نشانی بنا دیں۔ اس امر پر صراحۃ دلالت کرتا ہے کہ تولد مسیح قدرت خداوندی کی ایک خاص نشانی ہوگی اور لفظ ” آیت “ صرف ایسے ہی موقعہ پر استعمال ہوتا ہے کہ جو چیز بطور خرق عادت بلا اسباب ظاہری ظہور میں آئے جیسے اصحاب کہف اور ناقہ صالح (علیہ السلام) پر لفظ آیت کا اطلاق کیا گیا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ یہ ولادت عجائب قدرت سے ہے۔ جن میں اسباب ظاہری کو دخل نہیں۔ 3۔ آیت ان مثل عیسیٰ عند اللٰہ کمثل اٰدم میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بلاباپ ولادت کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی ولادت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح آدم (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا دلیل ان کی الوہیت کی نہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا الوہیت اور ابنیت کی دلیل نہیں۔ یہ آیت نصاریٰ کے اس خیال کے رد کرنے کے لیے نازل ہوئی کہ جو مسیح (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے خدا کا بیٹا سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ اس قصہ میں حضرت مریم (علیہ السلام) کی کرامتوں کا ذکر ہے۔ جیسے یکایک ایک خشک کھجور کا پھل دار ہوجانا اور یکدم اس کے قریب پانی کا چشمہ ہوجانا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کا گہوارہ میں لوگوں سے خارق عادت طریقہ پر عجیب و غریب کلام کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام امور اس امر کی دلیل ہیں کہ یہ ولادت بطور کا رق عادت بلا اسباب طاہری قدرت خداوندی کا ایک کرشمہ تھی لوگ ان کرامتوں کو دیکھ کر مطمئن ہوگئے اور سمجھ گئے کہ ایسا مبارک مولود معاذ اللہ کبھی بھی ولد الزنا نہیں ہوسکتا۔ شیر خوار بچہ کی اس خارق عادت گفتگو نے تمام تہمتوں اور بدگمانیوں کا خاتمہ کردیا۔ اور بدزبانوں کی زبان بند کردی اور ملاحدہ اور زنادقہ نے جو ان صریح آیات میں تاویلات اور تحریفات کی ہیں اور اناجیل کا سہارا پکڑا ہے سو ان کی تردید کے لیے (اول) تو یہی کہہ دینا کافی ہے کہ اناجیل کا محرف ہونا قرآن اور حدیث اور اجماع امت سے اور علماء یہود و نصاریٰ کے اعتراف اور اقرار سے ثابت ہے۔ قرآن و حدیث کے مقابلہ میں محرف کتاب کو کیسے حجت میں پیش کیا جاسکتا ہے ؟ (دوم) یہ کہ انجیل متی کے باب اول درس 18 سے لے کر اخیر تک اس کی تصریح ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ایک کنواری سے پیدا ہوئے جس کا ایک جملہ یہ ہے۔ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوئی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئیں۔ پھر انجیل لوقا کے باب اول درس 26 سے لے کر 38 تک یہی کلام چلا گیا ہے جس کے کئی جملوں میں قرآن کے موافق مریم (علیہ السلام) کا فرشتہ سے حمل ہونا اور مسیح کا بغیر باپ کے پیدا ہونا مذکور ہے اس میں یہ مذکور ہے کہ ” مریم (علیہ السلام) نے فرشتہ سے کہا یہ کیونکر ہوگا جس حال سے کہ مرد سے واقف بھی نہیں اور فرشتہ نے جواب میں اس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگا۔ اور خدا کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی “۔ اور صحیفہء یسعیاہ کے باب 7 درس 14 میں ہے۔ ” ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی “ پھرنا معلوم کہ یہ ملاحدہ اور زنادقہ مسلمانوں جیسے نام رکھ کر کہاں سے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں اور صریح آیات قرآنیہ کا انکار کرتے ہیں اور اس قسم کی ولادت کو خلاف سنت الٰہیہ کہہ کر محال بتلاتے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ اللہ کی سنت اور اس کا قانون انبیاء اور اولیاء کے ساتھ اور ہے اور عوام اور دشمنوں کے ساتھ اور ہے۔ 2۔ نیز آیات قرآنیہ کا از اول تا آخر تمام سیاق وسباق صراحۃ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ کلام شیر خوارگی کی حالت میں تھا۔ اور ملاحدہ یہ کہتے ہیں کہ بارہ برس کی عمر میں تھا یا نبوت ملنے کے بعد تھا۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم ان یقولون الا کذبا۔ جس طرح لوگوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ولادت میں اختلاف کیا اسی طرح لوگوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی وفات کے بارے میں بھی اختلاف کیا۔ یہود بےبہبود کہتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) صلیب پر چڑھائے گئے اور صلیب ہی پر مرگئے اور لعنتی ہوئے۔ اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) صلیب پر چڑھائے گئے اور صلیب پر مرے اور تین دن کے واسطے تمام انسانوں کے گناہوں کا عذاب اٹھایا تاکہ سب کے گناہوں کا کفارہ ہوں اور اس کے بعد وہ زندہ ہوئے اور جی اٹھے اور آسمان پر چلے گئے۔ اور اپنے باپ کے پاس جا بیٹھے اور تمام اہل اسلام یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) صلیب پر نہیں چڑھائے گئے اور نہ وہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے بلکہ اسی جسم عنصری کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور جس جسم کو وہ قتل کرنا یا صلیب دینا چاہتے تھے اللہ نے اسی جسم کو زندہ اور صحیح سالم آسمان پر اٹھا لیا۔ اور ایک شخص حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مشابہ اور ہمشکل بنا دیا گیا اور وہ ان کی جگہ ان کے شبہ میں مصلوب ہوا بعض فرقے بھی اسی کے قائل ہیں۔ اور جو شخص حضرت مسیح (علیہ السلام) کی جگہ مصلوب ہوا بعض کہتے ہیں اس کا نام یہودا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ اس کا نام شمعون تھا۔ اس مسئلہ کی تفصیل سورة نساء کے اخیر میں گزر چکی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہ السلام) کو تو خاموشی کا حکم دیا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) جو کلمۃ اللہ اور کلمہء صدق تھے ان کو گویا کردیا تاکہ اللہ کی الوہیت اور اپنی عبدیت اور ماں کی طہارت و نزاہت ایسے خارق عادت طریقہ سے ظہور میں آئے کہ کسی کو مجال انکار کی نہ رہے اور چونکہ اللہ پاک کے علم میں تھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں طرح طرح سے الفاظ کفریہ کہے جائیں گے، لہٰذا اول گویائی میں ان کی زبان سے وہ باتیں نکلوائیں جو ہمہ قسم کفر کے رد کے لیے کافی ہوں۔ 4۔ حدیث ذبح موت : امام قرطبی (رح) فرماتے ہیں کہ موت کو مینڈھے کی صورت میں لا کر ذبح کرنے میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہ ان کا فدیہ اور بدل ہے۔ جیسے اسماعیل (علیہ السلام) کے فدیہ میں مینڈھا ذبح کیا گیا اور اس مینڈھے کے کبودی رنگ یا سیاہ سفید ہونے میں بہشتیوں اور دوزخیوں کی طرف اشارہ ہے اس لیے کہ سفیدی اہل جنت کا رنگ ہے اور سیاہی اہل دوزخ کا رنگ ہے۔ اور حدیث میں موت کے مینڈھے کی صفت املح وارد ہوئی ہے اور املح وہ ہے کہ جس میں سیاہی اور سفیدی ملی ہوئی ہو۔ (دیکھو فتح الباری صفحہ 362 ج 11 باب صفۃ الجنۃ و النار من کتاب الرقاق) 5۔ امام قرطبی (رح) نے بعض صوفیاء کرام سے نقل کیا ہے کہ اس موت کے مینڈھے کو یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) آنحضرت ﷺ کے سامنے ذبح کریں گے جس سے دوام حیات اور بقائے دائمی کی طرف اشارہ ہوگا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جبریل (علیہ السلام) ذبح کریں گے۔ (فتح الباری صفحہ 362 ج 11) 6۔ موت کے مینڈھے کے ذبح ہونے کے بعد ایک منادی ندا کرے گا۔ اے اہل جنت ! اب تم کو موت نہیں۔ اور اے اہل دوزخ ! اب تم کو موت نہیں۔ موت کے ذبح کے بعد یہ منادی اس لیے ہوگی کہ سب کو معلوم ہوجائے کہ موت اب مردہ اور معدوم اور فنا ہوگئی اس کے بعد موت پھر کبھی نہیں آئے گی اور ظاہر ہے کہ موت اور فنا کے ذبح ہوجانے کے بعد سوائے بقاء اور دوام کے اور کیا ہوگا۔ (فتح الباری صفحہ 362 ج 11) 7۔ موت کا مینڈھا ذبح ہونے کے بعد فریقین کے لیے یہ اعلان : کلاھما خلود فیما تجدون لا موت فیہ ابدا (فتح الباری صفحہ 362 ج 11) اس امر کی صریح دلیل ہے کہ جس طرح اہل ایمان کا جنت میں خلود ابدی ہوگا اسی طرح کافروں کا خلود ابدی ہوگا اور یہی تمام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، ابن تیمیہ (رح) اور ابن قیم (رح) نے اس بارے میں جمہور کا خلاف کیا اور یہ گمان کیا کہ کفار چند روز کے بعد دوزخ سے نکال لیے جائیں گے۔ یہ بالکل غلط ہے اور سیرۃ النبی ﷺ کے مصنف نے بھی اس غلطی میں ابن تیمیہ کی تقلید کی اور علامہ شبلی (رح) کو اور ان کے پیروؤں کو اپنی مزعوم درایت پر بڑا ناز ہے اور اہل ندوہ اپنے دفرد اور شذوذ کو تحقیق سمجھتے ہیں۔ نعوذ باللہ من سوء الفھم۔
Top