Tadabbur-e-Quran - Maryam : 34
ذٰلِكَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ١ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم قَوْلَ : بات الْحَقِّ : سچی الَّذِيْ فِيْهِ : وہ جس میں يَمْتَرُوْنَ : وہ شک کرتے ہیں
یہ ہیں عیسیٰ ان مریم۔ یہ اصل حقیقت بیان ہوئی ہے جس میں یہ لوگ جھگڑ رہے ہیں
تفسیر آیات 34 تا 35: ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ (34) مَا كَانَ لِلَّهِ أَنْ يَتَّخِذَ مِنْ وَلَدٍ سُبْحَانَهُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (35) ایک برمحل جملہ معترضہ بطور تنبیہ : یہ دو ٓیتیں، حضرت مسیح کے ارشادات کے بیچ میں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور جملہ معترضہ ہیں۔ بالکل برمحل لوگوں کو عام طور پر اور نصاریٰ کو خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ ہے حضرت مسیح کی اصل حقیقت جو انہوں نے خود اپنی زبان سے واضح فرمائی ہے۔ نصاری کی معمہ سازی : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ۔۔ امتراٗ کے اصل معنی بکری کے تھن کو اچھی طرح نچوڑنے کے ہیں۔ یہیں سے یہ لفظ کٹ حجتی کرکے کسی بات کو بتنگڑ بنانے اور اس میں طرح طرح کے اوہام و شکوک پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے لگا۔ فرمایا کہ حضرت مسیح کی اصل حقیقت تو یہ ہے جو اللہ نے بھی بیان فرمادی اور خود حضرت مسیح نے بھی واضح کردی لیکن عیسائیوں نے اس کو گھس گھس کر افسانہ بنا دیا جس سے خود بھی اوہام میں مبتلا ہوئے۔ اور دوسروں کو بھی مبتلا کر رہے ہیں۔ ہم نصاریٰ کی الہیات پر مائدہ 17 کے تحت تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں، اس پر ایک نظر ڈال کرد یکھیے تو اندازہ ہوگا کہ پال نے سیدھی سادی بات کو کس طرح ایک چیستان اور معمہ بنا کے رکھ دیا ہے۔ نصاریٰ کا شرک : مَا كَانَ لِلَّهِ أَنْ يَتَّخِذَ مِنْ وَلَدٍ سُبْحَانَهُ ، یہ اس شرک کی تردید ہے جس میں عیسائی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا فرض کرکے مبتلا ہوئے۔ فرمایا کہ خدا کی صفات کے یہ بات بالکل منافی ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔ سُبْحَانَهُ ، وہ اس قسم کی تمام نسبتوں سے بالکل پاک ہے، إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔ بیٹے کی ضرورت اس کو ہوتی ہے جو اپنے ارادوں اور منصوبوں کو بروئے کار لانے میں کسی کا محتاج ہو۔ خدا کسی کا محتاج نہیں وہ جب کسی امر کا ارادہ کرتا ہے تو بس اس کے کلمہ۔ کن۔ سے اس کا ہر ارادہ پورا ہوجاتا ہے۔ اس ٹکڑے میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ حضرت عیسیٰ کی خارق عادت ولادت بھی ان کی الوہیت کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ بھی خدا کے کلمہ " کن " ہی کا ایک کرشمہ ہے۔ خدا نے چاہا کہ وہ یوں ہی پیدا ہوں تو وہ بن باپ کے کلمہ کن سے پیدا ہوگئے۔
Top