Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 38
وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ١۫ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَۙ
وَعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَقَدْ : اور تحقیق تَّبَيَّنَ : واضح ہوگئے ہیں لَكُمْ : تم پر مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ : ان کے رہنے کے مقامات وَزَيَّنَ : اور بھلے کر دکھائے لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال فَصَدَّهُمْ : پھر روک دیا انہیں عَنِ : سے السَّبِيْلِ : راہ وَكَانُوْا : حالانکہ وہ تھے مُسْتَبْصِرِيْنَ : سمجھ بوجھ والے
اور عاد اور ثمود کو بھی (ہم نے ہلاک کردیا) چناچہ ان کے (ویران گھر) تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کو آراستہ کر دکھائے اور انکو (سیدھے) راستے سے روک دیا حالانکہ وہ دیکھنے والے (لوگ) تھے
قصہء پنجم مشتمل بر ذکر اجمالی عاد وثمود وقارون وفرعون وہامان قال اللہ تعالیٰ وعادا وثمودا وقد تبین لکم من مسکنہم۔۔۔ الی۔۔۔ ولکن کانوا انفسہم یظلمون۔ یہ پانچواں قصہ ہے جو اجمالی طور پر عاد اور ثمود اور قارون اور فرعون اور ہامان کے ذکر پر مشتمل ہے اللہ تعالیٰ نے ان پانچ سرکشوں کا ذکر کر کے ایک جملہ میں اجمالا سب کی سزا کو بیان کردیا۔ فکلا اخذنا بذنبہ۔ ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے سبب پکڑ لیا اور بتلادیا کہ یہ ازلی بدنصیب تھے ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہی لوگوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہر ایک کو اس کے جرم کے مطابق سزادی اور ہلاک کیا ان آیات میں ان سرکشوں کی سزاؤں کا اجمالا ذکر کیا۔ تفصیل نہیں کی اس لئے کہ تفصیل دوسری جگہ گزر چکی ہے۔ اور ہم نے قوم عاد کو اور ثمود کو بھی اسی تکذیب اور عناد کے جرم میں ہلاک کیا اور ان یہ تباہی اور بربادی ان کے مکانوں سے ظاہر ہوتی ہے کہ اجاڑ اور کھنڈر پڑے ہیں جن کو تم یمن آتے جاتے دیکھتے ہو اور ان کی کھنڈروں سے آثار عذاب محسوس کرتے ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے ان کے اعمال کو یعنی کفر اور تکذیب کو ان کی نظر میں آراستہ کردیا تھا حالانکہ وہ لوگ دنیا کے کام میں بڑے ہوشیار تھے اور اپنے نزدیک بڑے عقل مند تھے مگر شیطان نے ان پر ایسا جادو کیا کہ پیغمبروں کی معقول باتیں تو ان کی سمجھ میں نہ آئیں اور شیطان کے جال اور فریب میں پھنس گئے۔ اور ہم نے قارون کو اور فرعون کو اور ہامان کو ہلاک کیا اور یہ اسی کے مستحق تھے اس لئے کہ البتہ تحقیق موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس روشن دلائل اور واضح واضح حجتیں اور کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے جن میں کسی قسم کے شک اور شبہ کی گنجائش نہ تھی پس ان لوگوں نے زمین میں رہتے ہوئے بڑے بننے کی کوشش کی اور آسمانی حکم کا اپنی فانی اور مجازی قوت اور طاقت سے مقابلہ کیا اور چاہا کہ اللہ سے سبقت لے جائیں اور نہیں تھے یہ حکم الٰہی پر سبقت لے جانے والے بلکہ حکم الٰہی ان پر جاری ہوا پس ان میں سے ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ اور جرم کے سبب پکڑا اور کوئی ہماری گرفت سے نکل نہ سکا۔ پس ان میں سے بعض پر تو ہم نے پتھراؤ کیا جیسے قوم لوط۔ اور ان میں سے بعض کو سخت آواز سے پکڑا جیسے قوم ثمود جن کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) بھیجے گئے تھے جیسے کتوں کو سخت آواز سے زجر کیا جاتا ہے اسی طرح ان سنگدلوں کو سگان دنیا کی طرح سخت آواز سے ہلاک کردیا گیا اور بعضوں کو زلزلہ سے ہلاک کیا گیا جن کو اپنی سنگین عمارتوں پر فخر تھا۔ اور بعضوں کو یعنی قوم عاد کو ہوا سے ہلاک اور ریزہ ریزہ کیا گیا جو من اشد منا قوۃ۔ کا نعرہ لگاتے تھے کہ تم ہوا کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے اور ان میں سے بعض کو زمین میں دھنسایا جیسے قارون جسے اپنے خزینوں اور دفینوں پر فخر تھا کہ اس کے خزینے زمین میں مدفون ہیں اور اس کو مع اس کے خزانوں کے زمین میں دفن کردیا اور ان میں سے بعض کو غرق کیا۔ جیسے قوم نوح اور فرعون جو کفر میں غرق تھے۔ فرعون بطور فخریہ کہا کرتا تھا۔ الیس لی ملک مصر وھذہ الانھار تجری من تحتی اس کو اسی کی قابل فخر نہر میں غرق کردیا گیا پس ان قوموں کی دنیا اور آخرت دونوں ہی تباہ اور برباد ہوئیں اور ممکن نہیں کہ اللہ کسی پر ظلم کرے لیکن یہ لوگ خود ہی ایسے تھے کہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے تھے اور کفرومعصیت کر کے خود ہی اپنے آپ کو تیر عذاب کا نشانہ بنا رہے تھے۔ رباعی اے کہ حکم شرح راردمیکنی راہ باطل میروی بد میکنی چوں تو بدکردی بدی یابی جزاء پس بدیہا جملہ باخود میکنی
Top