Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 27
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّ١ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَ١ۙ مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَكُمْ وَ مُقَصِّرِیْنَ١ۙ لَا تَخَافُوْنَ١ؕ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِیْبًا
لَقَدْ : یقیناً صَدَقَ اللّٰهُ : سچا دکھایا اللہ نے رَسُوْلَهُ : اپنے رسول کو الرُّءْيَا : خواب بِالْحَقِّ ۚ : حقیقت کے مطابق لَتَدْخُلُنَّ : البتہ تم ضرور داخل ہوگے الْمَسْجِدَ : مسجد الْحَرَامَ : حرام اِنْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر اللہ نے چاہا اٰمِنِيْنَ ۙ : امن و امان کیساتھ مُحَلِّقِيْنَ : منڈاتے ہوئے رُءُوْسَكُمْ : اپنے سر وَمُقَصِّرِيْنَ ۙ : اور کتراتے ہوئے لَا تَخَافُوْنَ ۭ : نہ تمہیں کوئی خوف ہوگا فَعَلِمَ : پس اس نے معلوم کرلیا مَا لَمْ تَعْلَمُوْا : جو تم نہیں جانتے فَجَعَلَ : پس کردی اس نے مِنْ دُوْنِ : اس سے ورے (پہلے) ذٰلِكَ : اس فَتْحًا قَرِيْبًا : ایک قریبی فتح
بیشک خدا نے اپنے پیغمبر کو سچا (اور) صحیح خواب دکھایا کہ تم خدا نے چاہا تو مسجد حرام میں اپنے سر منڈوا کر اور اپنے بال کتروا کر امن وامان سے داخل ہو گے اور کسی طرح کا خوف نہ کرو گے جو بات تم نہیں جانتے تھے اس کو معلوم تھی تو اس نے اس سے پہلے ہی جلد فتح کرا دی
العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ : خاتمہ سورت بربشارت غلبہ و ترقی اسلام مع بیان فضائل حضرات صحابہرضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین : قال اللہ تعالیٰ (آیت ) ” لقد صدق اللہ رسولہ الرء یا بالحق ...... الی ...... اجرا عظیما “۔ (ربط) سورة کا آغاز فتح مبین کی بشارت سے فرمایا گیا تھا اور یہ کہ وہ معاہدہ وصلح جو اللہ رب العزت کی طرف سے فتح مبین ہے بیشمار عنایات اور کرامات کا ذریعہ ہے، فتوحات اور غنائم سے مسلمان قوم عظمت اور سربلندی حاصل کرے گی روم اور فارس کی فتح کی بھی بشارت سنا دی گئی جس کو اللہ تعالیٰ نے خلفائے ثلثہ ؓ کے ہاتھوں پورا فرمایا ساتھ ہی حیلے اور بہانے بنا کر گھروں میں بیٹھے رہنے والوں منافقین کی خباثت وشناعت کے ساتھ ان پر وعید وتنبیہ بھی فرما دی گئی تو اب اختتام سورت پر جس خواب کی تعبیر کو اللہ نے پورا فرمایا اس ذکر کرتے ہوئے غلبہ دین اور ترقی اسلام کی بشارت سنائی جارہی ہے اور اعراب منافقین کے بالمقابل مخلصین کاملین اصحاب رسول اللہ ﷺ کے فضائل و کمالات بیان فرمائے جارہے ہیں فرمایا۔ بیشک اللہ نے سچ کردکھایا اپنے رسول ﷺ کو وہ خواب تحقیق کے ساتھ اس کی پوری پوری تعبیر دنیا کے سامنے ایک حقیقت بنا کر ظاہر فرما دی کہ اے مسلمانو ! یقیناً تم داخل ہو کر رہو گے مسجد حرام میں اللہ اگر اللہ نے چاہا امن و اطمینان کے ساتھ اس طرح کہ مونڈائے ہوئے ہوگے اپنے سروں کو اور کچھ لوگ تم میں سے کترتے ہوں گے اس حال میں کہ تم کسی سے کوئی اندیشہ نہیں رکھتے ہوگے پھرجانا اللہ نے اپنے علم محیط کے لحاظ سے اس چیز کو جو تم نہیں جانتے تھے کہ اس خواب کی تعبیر ایک سال میں ظاہر کرنے میں کس قدر حکمتیں اور عظیم مصلحتیں ہیں حالانکہ آنحضرت ﷺ نے مدینہ منورہ میں جب وہ خواب 6 ہجری میں دیکھا کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ہمراہ صحابہ کرام مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے ہیں کوئی سرمنڈا کر حلال ہورہا ہے اور کوئی بال کترا کر اور اتفاق امر یہ کہ اسی سال آپ ﷺ نے عمرہ کا قصد فرما کر صحابہ کی ایک جماعت اپنے ہمراہ لے کر روانگی کا اعلان فرما دیا تو صحابہ نے یہ خیال کیا ہم اسی سال مکہ میں داخل ہوں گے اور عمرہ ادا کریں گے جب صلح مکمل ہونے پر بغیر عمرہ کئے ہوتے حدیبیہ سے واپسی ہونے لگی تو بعض صحابہ عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال ایسا ہوگا عرض کی نہیں یا رسول اللہ فرمایا تو بیشک یوں ہی ہو کر رہے گا تم امن وامان کے ساتھ مکہ پہنچ کر بیت اللہ کا طواف کروگے اور تم میں سے کوئی سر مونڈائے گا اور کوئی بال کترائے گا اور اس طرح تم احرام سے حلال ہوگے اور جب وہاں جاؤ گے تو یہ حال ہوگا تمہیں کسی کا خوف نہ ہوگا چناچہ حدیبیہ کی واپسی سے اگلے سال ایسا ہی ہوا اس آیت مبارکہ میں اسی کو فرمایا جارہا ہے کہ بالتحقیق اللہ نے اپنے رسول کا خواب سچا دکھایا ہے اور وہ پورا ہو کر رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ پھر اس خواب کی تعبیریا صلح حدیبیہ جو دراصل مستقبل کی فتوحات اور اسلام کی عظمت و ترقی کا ذریعہ بنی جیسے کہ پہلے بیان کیا گیا وہی پروردگار ہے جس نے بھیجا ہے اپنا رسول ہدایت دے کر اور سچا دین تاکہ غلبہ دے اس کو ہر دین پر جو اپنے اصول و عقائد اور فروع کے اعتبار سے اس قدر مضبوط واضح اور مستحسن ہے کہ اس سے قبل جس قدر ادیان گزرے شریعتیں اتاری گئیں اور انبیاء مبعوث ہوئے سب پر اسکو غلبہ حاصل ہوگا۔ چناچہ تاریخ سے اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب واقوام پر غالب ثابت کردیا اور اسلام نے بڑی شان و شوکت سے صدیوں تما مذاہب والوں پر حکومت کی اور آئندہ بھی دنیا اس حقیقت کا مشاہدہ کرے گی باقی یہ بات کہ اس دعوی کی کیا دلیل ہے تو بس سن لینا چاہئے کہ اللہ ہی کافی ہے حق ثابت کرنے والا ہونے کی حیثیت سے کہ تاریخ عالم دین اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے، محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو انکے ساتھ ہیں وہ بڑے ہی مضبوط اور زور آور ہیں کافروں کے مقابلہ میں۔ 1 حاشیہ (یعنی یہ دو صفتیں شدت ونرمی ان حضرات میں تھی لیکن الحب فی اللہ والبغض فی اللہ کی شان ان میں اس قدر رچی ہوئی تھی کہ کفر اور کافروں کے مقابلہ میں بڑے زور آور اور مضبوط اور شدید لیکن ایمان والوں کے واسطے سراپا پیکر محبت ومہربانی۔ حسن بصری (رح) سے منقول ہے کہ کافروں کے ساتھ شدت ونفرت کا تو یا عالم تھا کہ یہ بھی گوارا نہ تھا کہ انکے کپڑے بھی کافروں کے کپڑوں سے لگیں یا انکے بدن سے کافروں کا بدن چھوئے اسکے بالمقابل اہل ایمان کے ساتھ محبت کا یہ حال تھا کہ جب بھی کوئی بھی کوئی مسلمان اپنے دوسرے بھائی سے ملتا تو مصافحہ اور معانقہ کرتا 12۔ روح المعانی ج 26) اور نہایت ہی نرم دل ہیں آپس میں جس سے کافروں پر رعب پڑتا ہے اور کفر سے نفرت وبیزاری کا اظہار مگر اس شدت اور سختی کے ساتھ اپنے بھائیوں کے ساتھ بڑے ہی نرم دل ہیں (آیت ) ” اذلۃ علی ال مومنین اعزۃ علی الکافرین “۔ کا پیکر ہیں اور یہ دونوں شانیں حضرات صحابہ ؓ کی مقام حدیبیہ میں پوری طرح نمایاں ہورہی تھیں اس ایمانی پختگی اور عظمت کے ساتھ انکے ذوق عبادت اخلاص اور خشیت خداوندی کا یہ حال ہے کہ دیکھے گا کہ ان کو اے مخاطب رکوع کرتا ہوا اور سر بسجود اس طرح کہ ڈھونڈتے ہیں اللہ کی مہربانی اور اسکی خوشنودی اس اخلاص اور جذبہ سے کہ انکی ہر عبادت ہر ریا سے پاک صرف اسی غرض اور مقصد پر دائر ہوتی ہے ان کے باطنی تقوی کے آثار ایسے قوی ہیں کہ باطن سے ان کے آثار چہروں پر نمایاں محسوس ہوتے ہیں کہ دیکھے گا اے مخاطب ان کی نشانی اور اثر باطنی تقوی اخلاص اور خشیت کا ان کے چہروں پر سجدہ کے اثر سے کیونکہ نمازوں کی پابندی بالخصوص تہجد کا اک خاص نور اور رونق عابدین کے چہروں پر جھلکتی ہے گویا حسن نیت اور اخلاص کی شعاعیں باطن سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر کو روشن رہی ہیں۔ حاشیہ (حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اصحاب اپنے چہروں کے نور اور متقیانہ چال ڈھال سے الگ پہنچانے جاتے تھے، 12 (فوائد عثمانی ) مجاہد (رح) نے اس کی تفسیر میں حضرات صحابہ کا خشوع اور تقوی بیان کیا ہے اور بعض عارفین کا یہ قول نقل کیا ہے ان الحسنۃ نورا فی القلب وضیاء فی الوجہ وسعۃ فی الرزق “۔ کہ نیکی کا نور قلب میں ہوتا ہے اور اس کی رونق چہرہ پر ہوتی ہے اور وہ رزق میں فراخی کا باعث ہوتا ہے۔ امام مالک (رح) سے یہ منقول ہے فرمایا حضرات صحابہ ؓ کے خلوص نیت اور انکے محاسن اعمال کا یہ اثر تھا کہ جو بھی انکو دیکھتا اس کا دل گواہی دیتا کہ یہ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں اور نصاری نے تو صحابہ کو دیکھ کر ہی شام کے راستے ان کے لئے کھول دیئے تھے اور کہنے لگے خدا کی قسم یہ لوگ عی سے (علیہ السلام) کے حواریوں سے بھی اچھے ہیں 12 تفسیر ابن کثیر۔ ‘) یہ ہے ان کی صفت اور شان تورات میں اور مثال ان کی انجیل میں ایک کھیتی کی طرح ہے جس نے زمین سے نکالا اپنا پٹھا پھر اس کو مضبوط کیا پھر اسکو موٹا کیا پھر وہ برابر کھڑا ہوگیا اپنی پنڈلی یعنی نال پر اس طرح کہ پسند آتا ہے کھیتی کرنے والوں کو، یہ سب کچھ جو اس مثال کے ذریعہ صحابہ اور اسلام کی ترقی وشادابی اس کے نشوونما بلندی اور استقامت وقوت مقدر فرمائی گئی اور اس کو بیان کیا گیا اس غرض سے کہ ان کے ذریعہ کافروں کو غیظ وغضب میں ڈالے اور اسلام کی ترقی سے ان کے دل جلیں اور یہ بات اللہ نے پہلے ہی طے کرلی تھی کہ اسلام اس طرح کمزوری کے عالم میں نمودار ہوگا پھر ابھرے گا ترقی کرے گا اور پھلے پھولے گا تاآنکہ کافروں کے دل اسلام کی عظمت کو دیکھ کر جلنے لگیں جیسا کہ ارشاد مبارک ہے (آیت ) ” یریدون لیطفؤا نور اللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولوکرہ الکافرون “۔ وعدہ کیا ہے اللہ نے ایمان لانے والوں اور نیکی کے کام کرنے والوں سے مغفرت ومعافی کا اور بڑے ثواب کا اور اللہ کے وعدے سے بڑھ کر اور کون سا وعدہ سچا ہوسکتا ہے (آیت ) ” وعدہ اللہ، ومن اصدق من اللہ حدیثا “۔ چناچہ دنیا کے سامنے یہ وعدہ پور اہوکر رہا اور آخرت میں بھی اسی طرح ہوگا اور جو مثالیں تورات وانجیل میں صحابہ ؓ کے ایمان وتقوی اور ان کے ذریعہ اسلام کی ترقی و عظمت کی بیان کی گئی تھیں وہ بھی پوری طرح دنیا کے سامنے آگئی۔ تورات وانجیل میں حضرات صحابہ ؓ کے ایمان وتقوی کی نشانیاں : ان کلمات میں حضرت صحابہ کی عجیب ایمانی شان اور عظمت بیان کی گئی کہ انکی تورات وانجیل میں وہ نشانیاں ذکر کردی گئی تھیں کہ اہل کتاب دیکھ کر انہیں پہچان جاتے تھے کہ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہیں تورات میں بیان کردہ مثال تو وہ تھی جو (آیت) ” سیماھم فی وجوھہم “۔ میں ذکر فرمائی گئی اور انجیل میں جو مثال تھی وہ (آیت ) ” کزرع اخرج شطاہ “۔ تھی اکثر مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے کہ (آیت ) ” مثلھم فی التورۃ “۔ پر وقف ہے اور (آیت ) ” ومثلھم فی الانجیل “۔ جملہ مستانفہ ہے یعنی ان حضرات کی مثال انجیل میں اس کھیتی کی طرح بیان کی گئی ہے چناچہ مجاہد (رح)، ضحاک (رح) اور قتادہ (رح) نے اسی کی تصریح کی ہے (روح المعانی ج 26) یہ کھیتی جس کا ایک پٹھا نکالنا بیان کی اس سے مراد وہ ایک شخص ہے جس نے سب سے پہلے دین اسلام قبول کیا اور وہ صدیق اکبر ؓ ہیں جن کی شان میں قرآن کریم کی یہ آیت ” والذی جآء بالصدق وصدق بہ “۔ نازل ہوئی (آیت ) ” الذی جآء بالصدق “۔ رسول اللہ ﷺ ہیں اور وصدق بہ “۔ کا مصداق باجماع مفسرین صدیق اکبر ؓ ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) اس کھیتی کی مثال کی تقریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں یعنی اول اس دین پر ایک آدمی تھا پھر دو ہوئے پھر آہستہ آہستہ قوت بڑھتی گئی حضرت کے وقت میں پھر خلفاء کے عہد میں “ بعض علماء فرماتے ہیں کہ ”(آیت ) ” اخرج شطاہ “۔ میں عہدصدیقی ” فازرہ “۔ میں عہد فاروقی ” فاستغلظ “۔ میں عہد عثمانی اور (آیت ) ” فاستوی علی سوقہ “۔ میں عہد مرتضوی کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ بعض دیگر اکابر نے (آیت ) ” الذی معہ اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم ترھم رکعا سجدا “۔ کو بالترتیب خلفائے اربعہ پر تقسیم کردیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ یہ آیت جملہ حضرات صحابہ کی بہیئت مجموعی مدح ومنقبت پر مشتمل ہے خصوصا اصحاب بیعت الرضوان کی جن کا ذکر آغاز سورت سے برابر چلا آرہا ہے، (فوائد عثمانی ) حضرات صحابہ ؓ کے خصوصی فضائل اور ان کے ایمان وتقوی کی قرآنی شہادت : قرآن کریم میں یہ آیات حضرات صحابہ ؓ کی جس انداز کے ساتھ عظمت و برتری ان کا تقدس اور عنداللہ انکا محبوب ہونا اور کافروں کا ان سے بغض وعداوت رکھنا بیان کررہی ہیں اور وہ اپنے حقائق ولطائف کے لحاظ سے ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ سب سے اول آنحضرت ﷺ کا نام مبارک لے کر آپ ﷺ کی صفت رسالت کو بیان کیا گیا جس کو مشرکین نے صلحنامہ میں سے نکلوایا تھا جس کو اللہ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی کتاب میں لکھ دیا بعد ازاں صحابہ ؓ کے فضائل بیان کئے جو آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی عظیم دلیل ہیں شاگردوں کا کمال استاد کے کمال کی دلیل ہے اور آپ ﷺ کی رسالت کے بعد صحابہ ؓ کے فضائل کا ذکر کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد صحابہ ؓ کا مرتبہ ہے اور آئندہ آیت میں صحابہ ؓ کے اعمال اور اخلاص کا بیان ہے۔ اور (آیت ) ” والذین معہ “۔ سے وہ لوگ مراد ہیں جو سفر حدیبیہ میں آپ ﷺ کے ہمرکاب تھے اس لئے کہ اول تو اوپر سے سلسلہ کلام اصحاب حدیبیہ کی مدح میں چلا آرہا ہے دوم یہ کہ معیت کے حقیقی معنی کسی مقام میں کسی کے ساتھ ہونے کے ہیں اور معیت کے یہ معنی حقیقی ہیں اور جب تک معنی حقیقی بن سکیں معنی مجازی مراد نہیں لئے جاتے، سوم احادیث مستفیضہ مشہورہ سے بھی یہی ظاہر ہے کہ یہ آیات اصحاب حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئیں اب اس کے بعد (آیت ) ” اشدآء علی الکفار “۔ سے ان کے فضائل اور ان کی صفات کے ذکر کا آغاز ہوتا ہے، (آیت ) ” اشدآء علی الکفار رحمآء بینہم “۔ سے صحابہ کے کمال ایمان کی طرف اشارہ ہے جب کہ حدیث میں ہے۔ من احب لللہ وابغض وابغض للہ فقد استکمل الایمان “۔ یعنی ان لوگوں کی محبت اور عداوت کا دار و مدار ایمان اور کفر پر ہے ان لوگوں نے اپنی محبت اور شفقت کو اور عداوت ونفرت کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے غضب کے تابع کردیا ہے جن پر خدا نرم ہے ان پر یہ بھی نرم ہیں اور جن پر خدا گرم ہے اور ان پر یہ بھی گرم ہیں اور لفظ (آیت ) ” علی الکفار “۔ میں اشارہ اس طرف ہے کہ صحابہ ؓ کو کافروں کے محض کفر کی وجہ سے عداوت ہے کسی ذاتی غرض کی وجہ سے عداوت نہیں اور ظاہر ہے کہ کفر میں اصل اور بالذات شیطان ہے کما قال اللہ تعالیٰ ؛ (آیت ) ” وکان الشیطن لربہ کفورا “۔ اور نفس شیطان کا تو ام (جڑواں بھائی) ہے معلوم ہوا کہ جب صحابہ ؓ کافروں کے حق میں سخت ہیں تو نفس اور شیطان کے مقابلہ میں اور بھی زیادہ اشد ہوں گے کیونکہ البغض فی اللہ “۔ میں خدا کے دشمنوں سے عداوت بقدر دشمنی ہوتی ہے جو خدا کا دشمن زیادہ ہوگا اس سے دشمنی بھی زیادہ ہوگی لہذا جب صحابہ کرام ؓ (آیت ) ” اشدآء علی الکفار “۔ ہیں تو شیطن پر تو اور بھی زیادہ اشداء ہوں گے کیونکہ شیطان تمام کافروں کا سردار ہے اور علی ہذا القیاس نفس بھی اعداء میں سے ہے بلکہ ایک اعتبار سے شیطان سے بھی بڑھ کر ہے اس لئے کہ شیطان بھی نفس ہی کے سہارے سے اپنا کام کرتا ہے اگر نفس نہ مانے تو شیطان کیا کرے نیز یہ بھی یاد رہے کہ آیت میں ” کفار “ سے وہ کفار مراد ہیں جو ان اہل ایمان کے اعزہ و اقارب تھے تو جب مطلق عداوت کمال ایمان کی نشانی ہے تو اقرباء کی عداوت کو تو اکملیت کا نشان سمجھا جائے۔ الغرض جو شیطان کا ذاتی دشمن ہوگا وہ بھلا شیطان کے بہکائے میں کیسے آسکتا ہے اور جس پر نفس اور شیطان کا بس نہ چلتا ہو بلکہ نفس اور شیطان ہی ان کے سامنے بےبس ہوں ان کے سایہ ہی سے بھاگتا ہو اور جس راستہ پر وہ چلتے ہوں اس راستہ ہی کو بھول گیا ہو تو ایسے لوگوں کے مخلص اور مومن کا مل ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے لہذا (آیت ) ” اشدآء علی الکفار “۔ کو اکملیت ایمان کا نشان سمجھنا چاہئے ولذا قال اللہ تعالیٰ فی ایۃ اخری (آیت ) ” فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ اذلۃ علی ال مومنین اعزۃ علی الکافرین “۔ الغرض اس لفظ سے صحابہ ؓ کا کمال ایمان اور اللہ تعالیٰ کا محب اور محبوب ہونا خوب واضح ہوگیا اور ظاہر ہے کہ کمال محبت کا درجہ بددن حق الیقین کے حاصل نہیں ہوسکتا۔ نکتہ : انسان میں حق تعالیٰ نے دو قوتیں رکھی ہیں ایک قوت شہویہ اور ایک قوت غضبیہ قوت شہویہ کا کمال یہ ہے کہ اس کو رحمت الہی کے تابع کردے جس پر اللہ تعالیٰ مہربان ہو اس سے محبت کرے، (آیت ) ” رحمآء بینھم “۔ میں اس طرف اشارہ ہے اور قوت غضبیہ کا کمال یہ ہے کہ غضب خداوندی کے تابع ہو اور (آیت ) ” اشدآء علی الکفار “۔ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ (ازالۃ الخفاء ص 42 ج 1) الغرض (آیت ) ” الذین معہ “۔ کی۔ پہلی صفت : (آیت ) ” اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم “ میں صحابہ ؓ کے کمال ایمان کی طرف اشارہ ہے۔ دوسری صفت : (آیت ) ” ترھم رکعا سجدا “۔ میں صحابہ ؓ کی عبادت اور اعمال کا بیان ہے کہ بکثرت نمازوں میں مشغول رہے ہیں اور نماز مومن کی معراج ہے۔ تیسری صفت : (آیت ) ” یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا “۔ میں صحابہ ؓ کے اخلاص اور کمال عرفان کا بیان ہے کہ وہ عبادت محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں کسی اجر اور معاوضہ کے طالب نہیں۔ 1 حاشیہ (ظرف طریقت بود کا ولیا ..... تمنا کنند از خدا جز خدا ! گراز دوست چشمت براحسان دوست۔ تودر بند خوایشی نہ دربند اوست : بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کے یہ اعمال تقیہ کی بناء پر نہیں ان کا ظاہر اور باطن سب یکساں ہیں گذشتہ آیت یعنی (آیت ) ” ترھم رکعا سجدا “۔ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کا حال بیان کیا اور اس آیت میں یعنی (آیت ) ” یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا “۔ میں ان کے اخلاص ونیت کو بیان کیا کہ محض اللہ کی خوشنودی کے لئے عمل کرتے ہیں۔ چوتھی صفت : (آیت ) ” سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود “۔ میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان کے اندرونی ایمان کا رنگ چہروں پر نمایاں ہے مناجات اور دعا اور عبادت کے انوار باطن سے نکل کر ظاہر میں آشکارا ہوں گے شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ جب کوئی صحابی کسی مجمع میں بیٹھتے تو دور سے پہچان لئے جاتے اور اپنے چہرہ کے نور سے پہچانے جاتے کہ یہ صحابی ہین۔ ۔ مرد حقانی کی پیشانی کا نور : کب چھپا رہتا ہے پیش ذی شعور ؛۔ قانون ہے کل اناء یتر شح بما فیہ۔ ہر ظرف سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے اور عجب نہیں کہ ان مقامات میں ان کے قرب من اللہ کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ حدیث میں ہے اقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد۔ بندہ کو اللہ کا قرب سب سے زیادہ حالت سجود میں حاصل ہوتا ہے اور حق تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ (آیت ) ” واسجدواقترب “۔ اسی طرف مشیر معلوم ہوتا ہے۔ پانچویں صفت : (آیت ) ” ذالک مثلھم فی التورۃ ومثلھم فی الانجیل “۔ یعنی صحابہ ؓ کے یہ فضائل اور اوصاف توریت اور انجیل میں بھی مذکور ہیں جیسا کہ نبی کریم ﷺ کے متعلق قرآن کریم میں خبر دی گئی ہے ”۔ النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل “۔ کہ علماء اہل کتاب نبی امی کو توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں اسی طرح آنحضرت ﷺ کے اصحاب کی صفت بھی توریت وانجیل میں مذکور ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ العزیز (رح) فرماتے ہیں (آیت ) ” ذلک “۔ اسم اشارہ ہے جس کا اشارہ مابعد کی طرف ہے یعنی گزرع الخ کی طرف ہے جو بعد میں مذکور ہے جیسا کہ حق جل شانہ کے قول میں (آیت ) ” وقضینا الیہ ذلک الامر ان دابر ھؤلآء مقطوع مصبحین “ میں ذلک کا مشار الیہ (آیت ) ” ان دابر ھؤلآء “۔ ہے جو بعد میں مذکور ہے۔ چھٹی صفت : (آیت ) ” کزرع اخرج شطاہ “ الخ۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرۂ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دین اسلام کی تدریجی ترقی کو بیان فرمایا اور ان کی ترقی کو کھیتی کے ساتھ تشبیہ دی اور کھیتی کی چار حالتیں اور مثال کے ذریعہ تدریجی ترقی کے بڑے بڑے چار مرتبوں کی طرف اشارہ کیا کہ جس طرح کھیتی کی ترقی کے چار درجے ہیں اسی طرح اسلام کی ترقی کے چار درجے ہیں (پہلا درجہ) (آیت ) ” اخرج شطاہ “۔ کا ہے یعنی دانہ نکلنے کی حالت کا ہے یہ حالت آغاز وجود کی ہے جو نہایت کمزور حالت ہے یہ مرتبہ آنحضرت ﷺ کی ابتداء بعثت کے زمانہ میں ظہور پذیر ہوا جو نہایت کمزور حالت تھی اتنی کمزور حالت کہ صحابہ ؓ اپنے اسلام کے ظاہر کرنے پر قادر نہ تھے (آیت ) ” کزرع اخرج شطاہ “۔ سے اسی مرتبہ اور اسی حالت کی طرف اشارہ ہے کہ اسی طرح صحابہ ؓ کی حالت قبل از ہجرت کمزور تھی۔ (دوسرا مرتبہ) (آیت ) ” فازرہ “۔ یعنی دوسری حالت اس کھیتی کا مضبوط ہوجانا ہے جس سے یہ امید ہوجائے کہ یہ کھیتی اب ضائع نہ ہوگی بلکہ درخت بن جائے گی یہ حالت ہجرت کے بعد پیدا ہوئی کہ جب آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ ؓ نے مشرکین کے جو روستم سے نکل کر مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی اور سلسلہ جہاد کا شروع ہوا اور دشمنان خدا سے جہاد میں مشغول ہوئے اسلام کی ایک چھوٹی سی ریاست قائم ہوگئی یہ (آیت ) ” فازرہ “۔ کا درجہ ہوا سب سے پہلے بدر کا عظیم معرکہ پیش آیا یہاں تک کہ مکہ مکرمہ فتح ہوا اور تمام حجاز آپ ﷺ کے زیر اطاعت آگیا اور جزیرۃ العرب میں اسلام کی ایک درجہ کی ریاست اور حکومت قائم ہوگئی یہ (آیت ) ” فازرہ “ کا درجہ ہوا پس جب یہ درجہ حاصل ہوگیا تو اس حالت کے آخر میں آنحضرت ﷺ نے دار دنیا سے رفیق اعلی کی طرف رحلت فرمائی۔ (تیسرا درجہ) (آیت ) ” فاستغلظ “۔ یعنی تیسری حالت درخت موٹا ہوجاتا ہے یہ حالت شیخین ؓ کے زمانہ میں حاصل ہوئی کہ شیخین ؓ نے دنیا کی سب سے بڑی دو سلطنتوں سے جہاد کیا اور ان پر غالب آئے اور قیصر و کسری کی سلطنت مسلمانوں کے قبضہ میں آئی اور کفر کی شوکت زیر وزبر ہوگئی اور اسلام کو کفر پر برتری اور بالادستی حاصل ہوئی تو اب (آیت ) ” فاستغلظ “ کا درجہ حاصل ہوا۔ (چوتھا درجہ) (آیت ) ” فاستوی علی سوقہ “۔ کا ہے کہ درخت اپنے تنہ پر کھڑا ہوگیا یہ انتہائی کمال کی حالت ہے یہ حالت حضرت عثمان غنی ؓ کے دور خلافت میں حاصل ہوتی کہ قیصر و کسری کے ماتحت جو بڑی بڑی ریاستیں تھیں وہ سب فتح ہوگئیں اور اسلام کی باجگذار بن گئیں اور معمورۂ عالم کے قلب پر اسلام کا قبضہ ہوگیا اور روئے زمین پر اسلام کو اقتدار اعلی حاصل ہوگیا کہ روئے زمین کی کسی حکومت کو اسلامی حکومت کے مقابلہ میں سراٹھانے کی طاقت نہ رہی اور مشرق اور مغرب کا خراج مدینہ منورہ کے خزانہ میں پہنچ گیا اور تمام بلاد مفتوحہ میں قرآن اور حدیث کی نشر و اشاعت ہوئی جا بجا مسجدیں بن گئیں اور ہر شہر میں قاضی اور مفتی اور معلم مقرر ہوگئے ہر جگہ دین کی تعلیم جاری ہوئی اور ملک کے تمام مقامات کا فیصلہ شرعی قانون کے مطابق ہونے لگا اب اسلام کو (آیت ) ” فاستوی علی سوقہ “۔ کا درجہ حاصل ہوا کہ اسلام کی کھیتی اپنے عروج اور ترقی کے آخری درجہ پر پہنچی اور تمام دنیا میں اسلامی سکہ رائج ہوا اور اس کا بول بالا ہوا اور اسی کا حکم اور قانون دنیا میں رائج ہوا یہ سب فضل الہی تھا جو بطور خرق عادت ظہور میں آیا اور یہ سب باتیں خلفائے راشدین ؓ اور صحابہ کرام ؓ کی عظمت شان پر صراحۃ دلالت کرتی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں اسلام کو بام عروج پر پہنچایا اور اسلام کو (آیت ) ” فاستوی علی سوقہ “۔ کا درجہ حاصل ہوا اس لفظ میں ان فتوحات کی طرف اشارہ ہے، جو عثمان غنی ؓ کے زمانہ میں حاصل ہوئیں اور اسلام کو استحکام تام حاصل ہوا۔ (آیت ) ” ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآء “۔ غرض یہ کہ لفظ (آیت ) ” فاستغلظ “۔ میں خلافت شیخین ؓ کی طرف اشارہ ہے اور (آیت ) ” فاستوی علی سوقہ “۔ میں خلافت عثمانیہ کہ طرف اشارہ ہے۔ (آیت ) ” یعجب الزراع “۔ کی تفسیر میں شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ عجب نہیں کہ (آیت ) ” (آیت ) ” یعجب الزراع “۔ سے کارکنان قضا وقدر مراد ہوں کیونکہ اسلام کی کھیتی کے کاشتکار ملائکہ مدبرات ہیں اور لفظ یعجب حق تعالیٰ کی خوشنودی پر دلالت کرتا ہے۔ ساتویں صفت : (آیت ) ” لیغیظ بھم الکفار “۔ پھر اخیر میں صحابہ ؓ کی ایک صفت (آیت ) ” لیغیظ بھم الکفار “۔ بیان فرمائی کہ کافر اسلام کی اس کھیتی کو دیکھ کر غیظ وغضب میں آجائیں گے یہ نہیں فرمایا (آیت ) ” لیغیظ بھم الاعداء “۔ کہ ان کے دشمن یہ دیکھ کر جلیں گے تاکہ یہ چیز اس عنوان سے واضح ہوجائے کہ صحابہ ؓ سے جلن اور غیظ وغضب رکھنے والے کفر کے مرتکب اور کافر ہیں کہ خدا تعالیٰ جن کو پسند کرے ان کی مدح کرے یہ لوگ ان پر جرح وطعن کریں اور ان سے جلیں تو ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کون سادرجہ کفر کا ہوگا اور ایسا طرز یقیناً اس پر دلالت کرے گا ایسے لوگوں کو دراصل خدا ہی سے دشمنی اور ضد ہے۔ مواہب لدنیہ میں ہے کہ امام مالک (رح) نے اس آیت سے روافض کی تکفیر پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ صحابہ ؓ بغض رکھتے ہیں اور ان سے بغض نص قرآنی سے کفر ہے امام مالک (رح) کے اس قول اور فتوی کی تائید بہت سے اکابر، فقہاء اور ائمہ سے منقول ہے امام مالک (رح) کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا کہ وہ صحابہ ؓ کی شان میں تنقیص وتوہین کرتا ہے تو اس پر یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا جو شخص بھی صبح کو اس حالت میں اٹھے کہ اس کے دل میں صحابہ ؓ سے بغض ہے تو یقیناً یہ آیت اسی پر منطبق ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے فرمایا کرتے تھے رسول خدا کے اصحاب اس امت کے سب سے زیادہ برگزیدہ اور متقی افراد تھے جن کا علم نہایت عمیق تھا اور ان میں تکلف کا نام ونشان نہ تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پیغمبر کی مرافقت کے لیے اور اپنا دین قائم کرنے کے واسطے چنا تو انکی فضیلت و عظمت کو پہچانو اور ان کے نقش قدم پر چلو جہاں تک بھی تم سے ہوسکے۔ 1 حاشیہ (روح المعانی، سنن نسائی، جامع ترمذی۔ 12) وعدۂ مغفرت واجر عظیم از جملہ حضرات صحابہ ؓ : حضرات صحابہ ؓ کی مدح و توصیف کو وعدہ مغفرت اور اجر عظیم پر فرما کر ان جملہ کمالات پر مزید عظمت و برتری کی ایک مہرثبت فرما دی اور یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ لفظ منہم میں من بیانیہ ہے اور ضمیر کا مرجع وہی ہے جو ابتداء کلام (آیت ) ” والذین معہ اشدآء علی الکفار “۔ سے متعین ہوچکا وہ جملہ حضرات صحابہ کرام ؓ ہیں چناچہ علامہ آلوسی (رح) فرماتے ہیں منہم کی ضمیر مجرور اس جماعت کی طرف راجع ہے جو (آیت ) ” فازرہ “۔ اور (آیت ) ” فاستغلظ “۔ اور (آیت ) ” فاستوی علی سوقہ “۔ سے سمجھی جاتی ہے تو ضمائر سابقہ کے ساتھ یہ ضمیر بھی اسی جماعت کی طرف راجع ہے اور وجہ سے ” من “ بیانیہ ہے جیسا کہ من بیانیہ بہت سے مواقع میں استعمال ہوتا ہے مثلا (آیت ) ” فاجنتبوا الرجس من الاوثان “۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ جن حضرات کی حق تعالیٰ نے یہ صفات عظیمہ بیان کیں تو رات وانجیل سے ان کی شان بتائی گئی ان کے ایمان وتقوی کمال عبادت خشوع و خضوع کے اوصاف واضح کئے گئے تو بلاشبہ ان سب ہی سے وعدۂ مغفرت اور اجر عظیم ہوگا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان اوصاف و کمالات کو بیان کرکے وعدہ مغفرت اور اجر عظیم پوری جماعت سے نہ کیا جائے بلکہ مبہم طور پر بعض سے کیا جائے، بلاشبہ جن کی یہ خوبیاں اللہ نے آسمان اور زمین کی تخلیق سے قبل اپنی کتاب میں لکھ دیں وہ جماعت بلااستثناء فرد واحد اس وعدہ کی مستحق ہے اور جس گروہ کے بارے میں وعدہ مغفرت اور اجر عظیم ثابت ہوچکا انکے بارے میں کسی بھی وقت بعد نزول آیات ارتداد اور گمراہی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ شیعہ اس آیت میں من تبعیض کالے کر صرف چند نفوس پر اس وعدہ کو منطبق کرتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ نص قرآنی کا انکار اور تحریف دین ہے اصول شریعت کی رو سے اس زعم اور دعوی کے گمراہی اور خروج عن الحق والھدایۃ میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس اللہ سرہ نے ازالۃ الخفاء میں اس آیت پر کلام کرتے ہوئے لفظ من کو تبعیض کے معنی میں لیا توالعیاذ باللہ اس تقدیر پر نہیں کہ صحابہ اس کا مرجع ہوں اور پھر ان میں سے بعض کے بارے میں یہ وعدہ ہو بلکہ اس صورت میں یہ کلام مستقل ہے ہے حضرات صحابہ ؓ کے بعد آنے والی دوسری جماعتوں کے بارے میں یہ وعدہ فرمایا جارہا ہے کہ بعد میں آنے والی جو جماعتیں ان حضرات صحابہ ؓ کے نقش قدم پر چلیں گی اور ایمان وعمل صالح کے ساتھ متصف ہوں گی ان سے بھی اللہ رب العزت نے مغفرت اور اجرعظیم کا وعدہ فرمالیا ہے فرماتے ہیں کہ اس کا مرجع اصحاب حدیبیہ نہیں ان کے کمالات و فضائل ایمان وتقوی کی پختگی عاشق خدا اور رسول ہونا تو پہلے ہی بیان کردیا گیا تو اب آیت ” وعداللہ “۔ کا مضمون اصحاب حدیبیہ کے بارے میں ہونا تو ماقبل کے منافی ہوگا کیونکہ وعدہ مستقبل کے واسطے ہوتا ہے تو جب انکے فضائل واکرام کا تحقق ہوگیا تو وعدہ کا کیا درجہ رہ گیا۔ اس لئے (آیت ) ” منھم “۔ کی ضمیر جماعت جدیدہ اور بعد میں آنے والے اور ہونے والے مسلمانوں کی طرف راجع ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ھذا توضیح ماقالہ الشاہ ولی اللہ (رح) فی ازالۃ الخفاء واللہ اعلم بالصواب وھکذا حقق الشیخ الجلال المحلی (رح) وھکذا سمعت من حضرت الوالد الشیخ محمد ادریس الکاندھلوی (رح) قدتم بحمد اللہ تعالیٰ و توفیقہ تفسیر سورة الفتح وللہ الحمد، اللھم افتح لی ابواب رحمتک واشرح صدری لعلوم الکتاب۔
Top