Mualim-ul-Irfan - Al-Fath : 27
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّ١ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَ١ۙ مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَكُمْ وَ مُقَصِّرِیْنَ١ۙ لَا تَخَافُوْنَ١ؕ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِیْبًا
لَقَدْ : یقیناً صَدَقَ اللّٰهُ : سچا دکھایا اللہ نے رَسُوْلَهُ : اپنے رسول کو الرُّءْيَا : خواب بِالْحَقِّ ۚ : حقیقت کے مطابق لَتَدْخُلُنَّ : البتہ تم ضرور داخل ہوگے الْمَسْجِدَ : مسجد الْحَرَامَ : حرام اِنْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر اللہ نے چاہا اٰمِنِيْنَ ۙ : امن و امان کیساتھ مُحَلِّقِيْنَ : منڈاتے ہوئے رُءُوْسَكُمْ : اپنے سر وَمُقَصِّرِيْنَ ۙ : اور کتراتے ہوئے لَا تَخَافُوْنَ ۭ : نہ تمہیں کوئی خوف ہوگا فَعَلِمَ : پس اس نے معلوم کرلیا مَا لَمْ تَعْلَمُوْا : جو تم نہیں جانتے فَجَعَلَ : پس کردی اس نے مِنْ دُوْنِ : اس سے ورے (پہلے) ذٰلِكَ : اس فَتْحًا قَرِيْبًا : ایک قریبی فتح
البتہ تحقیق سچا کر دکھایا اللہ نے اپنے رسول کو خواب حق کے ساتھ ، البتہ ضرور داخل ہو گے تم مسجد حرام میں ، اگر اللہ نے چاہا ، امن سے ، مونڈنے والے ہو گے تم اپنے سروں کو اور ( کچھ) کترانے والے ہو گے اپنے بالوں کو ، تم پر کچھ خوف نہیں ہوگا ، پس اللہ نے جانا جو تم نہیں جانتے۔ پس اللہ نے ٹھہرائی اس کے ورے ایک قریب فتح
واقعہ حدیبیہ کا خلاصہ آج کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس خواب کا ذکر کیا ہے جو آپ نے عمرہ ادا کرنے سے متعلق دیکھا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ آپ مسجد حرام میں داخل ہوئے ہیں ، بیعت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کی ہے ، اور پھر کچھ لوگ سر منڈوا رہے ہیں اور کچھ بال کتروا رہے ہیں ۔ جب حضور ﷺ نے اس خواب کا تذکرہ صحابہ کرام ؓ سے کیا تو وہ بیت اللہ شریف کی محبت میں بےتاب ہوگئے اور انہوں نے سمجھا کہ انہیں عنقریب بیت اللہ شریف کی زیارت نصیب ہوگی ۔ حضور ﷺ نے سفر مکہ کا عام اعلان فرما دیا اور لوگوں نیت یاری شروع کردی حتیٰ کہ تقریباً پندرہ سو صحابہ ؓ کی جماعت نے عمرے کا احرام باندھا اور مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہدی کے جانور بھی ہمراہ تھے اور صحابہ ؓ کا خیال تھا کہ اپنے پرانے دستور کے مطابق قریش مکہ انہیں عمرہ کی ادائیگی سے نہیں روکیں گے۔ مگر جب یہ قافلہ حدیبیہ کے مقام پر پہنچا تو مشرکین نے آگے جانے سے روک دیا ۔ صحابہ کرام ؓ کو سخت پریشانی لا حق ہوئی کہ اتنا لمبا سفر کر کے آئے ہیں ، مگر منزل مقصود تک رسائی مشکل ہو رہی ہے ، جیسا کہ گزشتہ دروس میں بیان کیا جا چکا ہے ، مشرکین کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ جاری ہوا ۔ جس کے نتیجے میں صلح کا معاہدہ طے پایا جس کی اولین شرط یہ تھی کہ مسلمان اس سال بغیر عمرہ ادا کیے واپس چلے جائیں گے ، البتہ آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں قیام کر کے عمرہ ادا کرسکیں گے۔ اگرچہ مسلمانوں کے حق میں یہ شرائط نہایت کمزور تھیں ۔ مگر اللہ کے نبی نے انہیں منظور کیا اور قربانی کے جانور وہیں ذبح کر کے احرام کھول دیے اور مدینہ کی طرف واپس روانہ ہوگئے۔ جب واپسی کا بیس بائیس میل کا سفر طے ہوا تو راستے میں یہ سورة الفتح نازل ہوئی جس میں صلح حدیبیہ کو فتح مبین قرار دیا گیا ، اور اللہ نے مسلمانوں کے دلوں میں تسکین نازل فرما کر ان کی خلش کو دور کردیا اس سورة میں مشرکین کی ضد اور ہٹ دھرمی کا ذکر ہوا ، اور جنگ نہ کرنے کی حکمت بھی بیان ہوئی ۔ اس وقت مکہ میں بعض کمزور مسلمان تھے جنہوں نے اپنے ایمان کو چھپا رکھا تھا اور وہ حضور ﷺ کو خفیہ پیغام بھی بھیجتے رہتے تھے۔ اگر اس وقت جنگ شروع ہوجاتی تو مشرکین انہیں مسلمانوں کے ساتھ لا کھڑا کرتے جس کی وجہ سے سچے مسلمان خود مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جاتے ۔ اور اگر وہ لوگ مسلمانوں کے خلاف نکلنے سے گریز کرتے تو مشرکین کے مظالم کا شکار بنتے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں جنگ کے التواء کی یہ بہت بڑی حکمت تھی ۔ چناچہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے تمہارے ہاتھ مشرکوں سے اور مشرکوں کے ہاتھ تم سے روک لیے یعنی جنگ کی نوبت نہیں آنے دی ۔ اگرچہ مسلمان اس غیر متوقع واقعہ سے مطمئن ہوچکے تھے مگر جب مدینہ واپس پہنچے تو منافقوں نے طعنہ زنی شروع کردی کہ تم تو کہتے تھے کہ اللہ کے نبی کو خواب آیا ہے اور تم لوگ اس خواب کی صداقت پر یقین کر کے ہی عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تھے مگر ناکام لوٹے۔ مسلمانوں نے اس بات کا ذکر حضور ﷺ کے سامنے بھی کیا ، تو آپ نے فرمایا کہ میں نے جو خواب دیکھا تھا وہ بیان کردیا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ خواب عمرہ کی ادائیگی کی ہی پیشین گوئی تھی ۔ مگر میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ بیت اللہ کی زیارت اسی سال ہی نصیب ہو جائیگی ۔ یہ خواب بالکل سچا ہے اور جیسا کہ صلح کے معاہدہ میں طے پایا ہم انشاء اللہ اگلے سال بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہو سکیں گے۔ چناچہ اللہ نے اس درس میں اسی خواب کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی قریبی فتح کا بھی ۔ اس کے علاوہ پورے عالم میں اسلام کی فتح کا قانون بیان فرمایا ہے ، اور پھر سورة کی آخری آیت میں اس جماعت کی صفات آ رہی ہیں جس کے ذریعے دین حق پوری دنیا میں غالب آنے والا تھا۔ نبی کا خواب ارشاد ہوتا ہے لقد صدق اللہ رسولہ الرء یا بالحق البتہ تحقیق اللہ نے اپنے نبی کے خواب کو حق کے ساتھ سچا کر دکھایا ۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے رئویا الانبیاء وحی یعنی نبیوں کا خواب ایک قسم کی وحی ہوتی ہے۔ جس کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا ۔ نبی کے خواب میں نفسانی یا شیطانی ا ثر کا احتمال نہیں ہوتا ۔ البتہ خواب کی تعبیر میں اشتباہ یا تاخیر واقع ہو سکتی ہے۔ حضور ﷺ کو ہجرت سے متعلق جو خواب آیا تھا اس میں بھی اس قسم کا اشتباہ واقع ہوا تھا۔ آپ کو خواب میں ہجرت کا ایسا مقام دکھایا گیا تھا جہاں پتھریلی زمین ، پانی اور کھجوریں نظر آئیں ۔ حضور ﷺ نے اس مقام کو یمن میں واقع ہجر کے مقام پر محمول کیا ۔ حالانکہ ہجرت کا مقام تو اللہ نے مدینہ کو مقرر فرمایا تھا ، اور مذکورہ نشانیاں وہاں بھی پائی جاتی تھیں ۔ اس وقت مدینہ کو یثرب کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مطلب یہ کہ نبی کا خواب تو بہر حال سچا ہوتا ہے ، البتہ اس کی تعبیر میں اشتباہ ہوسکتا ہے۔ یا اس کی تکمیل میں تاخیر ہو سکتی ہے ، عمرہ کی ادائیگی والے خواب کو بھی اللہ نے سچا قرار دیا ہے ، تا ہم اس کی تکمیل میں ایک سال کا وقفہ آ گیا ۔ مسجد حرام میں داخلہ فرمایا اللہ نے اپنے رسول کا خواب سچا کر دکھایالتدخلن المسجد الحرام ان شاء اللہ امنین تم انشاء اللہ عنقریب مسجد الحرام میں امن طریقے سے داخل ہو گے۔ لتدخلن میں ل تاکید اور ن ثقیلہ ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ تم ضرور بر ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے ، یعنی اس میں شبے والی کوئی بات نہیں ہے ، انشاء اللہ کا لفظ عام طور پر ایسی جگہ استعمال کیا جاتا ہے جہاں کسی چیز کا سو فیصدی یقین نہ ہو بلکہ وہ کام اللہ تعالیٰ کی منشاء پر موقوف ہو ، تا ہم بعض مقامات پر انشاء اللہ کا لفظ بےیقینی کے طور پر نہیں بلکہ ادب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی مثال حضور ﷺ کی بتلائی ہوئی دعا میں بھی ملتی ہے جو قبرستان میں جا ک کی جاتی ہے۔ وہاں آتا ہے کہ اے قبروں والو ! تم پر سلامتی ہو وانا انشاء اللہ بکم للاحقون اور ہم بھی انشاء اللہ تم سے جلد ملنے والے ہیں ۔ اب اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں کہ موت سب پر طاری ہونی ہے اور سب نے پہلوں کے ساتھ ہی جا کر ملتا ہے مگر یہاں بھی انشاء اللہ کا لفظ محض ادب کے لیے لایا گیا ہے ۔ اس سے یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ مستقبل میں پیش آنے والے ہر معاملہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ دنیا چاہئے ، بلکہ اس بات کا حکم تو خود اللہ تعالیٰ نے سورة الکہف میں دے دیا ہے۔ وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللہ ُ (آیت : 23 : 24) یعنی مستقبل کے کسی کام سے متعلق یوں نہ کہو کہ میں اسے کل انجام دے دوں گا ۔ مگر ساتھ یوں کہو کہ اگر اللہ نے چاہا ، گویا اس کو اللہ کے سپرد کر دو ۔ اگر اس کی مشیت ہوگی تو تمہارے ارادے کے مطابق کام ہوجائے گا ، ورنہ نہیں ۔ مذکورہ خواب میں ایک تو اللہ تعالیٰ نے امن وامان کے ساتھ مسجد حرام میں داخلے کی بشارت دی اور ساتھ عمرہ کی ادائیگی کی تصدیق اس طریقے سے کردی محلقین رء و سکم و مقصرین کہ تم میں سے بعض سروں کو استرے کے ساتھ منڈوانے والے ہوں گے اور بعض بالوں کو کتروانے والے ، چونکہ حجامت عمرے کا طواف اور سعی کرنے کے بعد بنوائی جاتی ہے ، اس لیے ان الفاظ میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ تم مسجد حرام میں داخل ہو کر عمرہ بھی ادا کرو گے ۔ سر کا منڈوانا یا بولوں کا کترانا حج اور عمرے کا اہم رکن ہے ، تا ہم سر کا منڈوانا زیادہ افضل ہے۔ حضور ﷺ نے سر منڈوانے والوں کے لیے تین دفعہ دعا فرمائی اور بال کٹانے والوں کے لیے صرف ایک دفعہ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی حضور ﷺ نے سر کو منڈوایا تھا ، لہٰذا یہ افضل ہے اور ساتھ فرمایا کہ عمرہ کی ادائیگی میں لا تخافون تم کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کرو گے ، مسجد حرام میں داخل کے لیے بھی امنین کا لفظ آ چکا ہے اور یہاں عمرے کی ادائیگی کو بھی بلا خوف و خطر قرار دیا ہے ، اور ساتھ یہ بھی فرمایا فعلم ما لم تعلموا اللہ تعالیٰ وہ کچھ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے بظاہر تو عمرے کا التواء صحابہ ؓ کے لیے بڑا پریشان کن تھا۔ مگر اللہ نے فرمایا کہ اس التواء میں بھی تمہارے لیے کتنے بہتری ہے ، یہ اللہ ہی جانتا ہے ، تمہارے علم میں نہیں اس نے اپنے علم اور حکمت کی بناء پر بہتر ہی کیا ہے۔ قریبی فتح کی خوشخبری فرمایا فجعل من دون ذلک فتحا ً قریبا ً اور اس کے ورے اللہ نے قریبی فتح بھی رکھ دی ، یعنی جو عمرہ ادا نہیں کرسکے اس کی قضا دینے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ تمہیں ایک قریبی فتح سے بھی نوازے گا ۔ مطلب یہ ہے کہ عنقریب تمہیں ایک بہت بڑی فتح حاصل ہونے والی ہے جس میں تمہیں بہت سا مال و دولت ، زمینیں اور باغات بھی غنیمت میں ملے گے ۔ اس فتح سے مرادخیبر کی فتح ہے جو حدیبیہ سے واپسی کے جلدی بعد ہی حاصل ہوگئی ۔ اہل ایمان خیبر کے اموال سے خوب مستفید ہوئے اور ان کی تنگدستی دور ہوگئی ۔ مسلمانوں کے دلوں سے عمرے کی عدم ادائیگی کے قلق کو دور کرنے کے لیے اللہ نے اس قریبی فتح کو خوشخبری بھی راستے میں ہی سنا دی ۔ بہر حال اس پیشین گوئی کے مطابق اگلے سال یعنی 7؁ ھ میں مسلمانوں نے نہایت شان و شوکت کے ساتھ عمرہ ادا کیا ، اور عزت واپس آئے۔ یہ اخلاقی فتح یا فتح مبین تھی جس کا ذکر سورة کی ابتداء میں آ چکا ہے ۔ اور مادی فتح خیبر کی صورت میں حاصل ہوئی جس سے نہ صرف علاقے میں یہودکا اثر و رسوخ ختم ہوگیا بلکہ مسلمانوں کے ہاتھ بہت سا مال ، باغات اور زمینیں بھی آئیں ۔ اسلام کی دائمی فتح اب اگلی آیت میں اللہ نے اسلام کی دائمی فتح کا قانون بھی بتلا دیا ہے ارشاد ہوتا ہے ھو الذین ارسل رسولہ بالھدی اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے۔ ودین الحق اور ساتھ سچا دین بھی عطا کیا ہے ، اور اس سے مقصود یہ ہے لیظھرہ علی الدین کلہ تا کہ وہ اس سچے دین کو دوسرے ادیان پر ظاہر کردے یعنی غالب کردے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے دین اسلام نازل ہی اس لیے کیا ہے تا کہ دنیا میں صرف یہی دین قائم رہے اور باقی سب ختم ہوجائیں ۔ اسی موضوع کی آیات قرآن میں دوسری جگہ بھی موجود ہیں ۔ مثلاً سورة صف اور سورة توبہ میں بھی یہی الفاظ ہیں ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖلا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ اللہ کی ذات وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ، تا کہ اسے باقی تمام ادیان پر غالب کردیا جائے۔ اگرچہ مشرک لوگ اسے ناپسند ہی کریں ۔ البتہ اس مقام پر ان آخری الفاظ کی بجائے وکفی باللہ شھیدا ً کے الفاظ میں یعنی اللہ ہی کافی ہے گواہی دینے والا ۔ ہدایت دین کی روح اور اصل حکمت ہوتی ہے ، اور دین حق ، اعتقادات ، عبادات ، معاملات ، معاشرت ، سیاست اور اخلاقیات سے متعلقہ اصول اور قوانین ہوتے ہیں۔ اس آیت میں مذکورہ غلبہ دین کے متعلق شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ عام مفسرین اس آیت کا مفہوم سمجھانے سے عاجز رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کی حیات مبارکہ میں تو دین حق کو عمومی غلبہ حاصل نہیں ہوا تھا۔ اس وقت تک اسلام جزیرۃ العرب تک پھیلا تھا ، اور اس کے باہر قیصر و کسریٰ جیسی عظیم سپر طاقتیں موجود تھیں جو ساری دنیا پر چھائی ہوئی تھیں ۔ ا س سلسلے میں حضرت ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ اس غلبہ سے مراد وہ غلبہ ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ نزول کے بعد دین حق کو حاصل ہوگا ۔ اس کے بر خلاف مفسر قرآن حضرت حسن ابن فضل (رح) کا قول ہے کہ اس غلبہ سے مراد سیاسی غلبہ نہیں بلکہ دلیل اور برہان کا غلبہ ہے۔ یعنی دلائل کی رو سے دین اسلام تمام ادیان پر ہمیشہ غالب رہے گا ۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ دیگر مفسرین میں سے امام شافعی (رح) کی توجیہہ زیادہ بہتر ہے کہ شرک اہل کتاب اور عب کے امی لوگوں دونوں گروہوں میں پایا جاتا تھا جس کو مغلوب کرنا مقصود تھا چناچہ عرب کے سارے امی تو حضور ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں ہی مغلوب ہوگئے سارا عرب اسلام کے زیر نگیں آ گیا ، بعض مشرک مارے گئے اور بعض نے اسلام قبول کرلیا اور اس طرح سارا جزیرۃ العرب شرک کی نجاست سے پاک ہوگیا ۔ نصاریٰ میں نجران اور شام کے عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر کے جزیہ دینا قبول کرلیا اور اس طرح اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے وہ اسلام کے زیر نگیں آگئے۔ یہودیوں میں سے نبی نضیر ، بنی قریظہ ، بنی قینقاع اور خیبر والے سب مغلوب ہوگئے ۔ بعض یا جگزار بن گئے اور بعض بالکل ہی ختم ہوگئے ، چناچہ اس لحاظ سے دین حق کو باقی ادیان پر غلبے کا نام دیا جاسکتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) اس توجیہہ سے مکمل اتفاق نہیں کرتے بلکہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جس غلبہ دین کی بات کی گئی ہے ، وہ مکمل طور پر خلفائے راشدین ؓ کے زمانہ میں واقع ہوا ۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں تو قیصر و کسریٰ جیسی سپر طاقتیں دنیا میں موجود تھیں ، اور یہ دونوں ایک طرف اباحیت اور دوسری طرف ارجاء کے عقیدے میں مبتلا تھیں ، اباحیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ خورد نوش اور عورت کے معاملہ میں کسی قانون حلت و حرمت کے پابند نہیں تھے ، کھانے پینے اور دیگر استعمال کی چیزیں جہاں سے اور جیسے حاصل ہوتیں لے لیتے اور اس ضمن میں وہ کسی قانون کو نہیں جانتے تھے ، اسی طرح جس عورت سے چاہتے تعلق پیدا کرلیتے ۔ اس لحاظ سے وہ نکاح کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے ۔ ادھر ارجاء کا مطلب یہ لیتے تھے کہ جو چاہو کرتے رہو ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے سب کچھ معاف کر دے گا ، کوئی باز پرس نہیں لہٰذا اس سلسلہ میں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کو مبعوث فرما کر اس تحریک کا آغاز کردیا جس کے ذریعے یہ دونوں عالمی طاقتیں ختم ہوگئیں اور دین حق کو عمومی غلبہ حاصل ہوگیا ۔ چناچہ خلفائے راشدین ؓ کے زمانہ میں روم ، روس ، افریقہ ، جرمنی ، شام اور مصر وغیرہ قیصر روم کے ماتحت تھے ، یہ مغلوب ہوئے اور ادھر کسریٰ کے زیر تسلط خراسان ، توران ، ترکستان ، زاد تسان ، باختر اور مجوسی سب مغلوب ہوگئے۔ اس کے علاوہ تمام یہودی ، مشرک ، ہندو ، صابی قومیں بھی اسلام کے ماتحت آگئیں ، حضرت عمر ؓ کے زمانے میں کسریٰ ختم ہوا تو مجوسیت دم توڑ گئی اور حنیفیت کا دور شروع ہوگیا اور ادھر قیصر کا تسلط ، مصر ، شام اور فلسطین سے ختم ہوا اور اسلام کو عمومی غلبہ حاصل ہوگیا۔ مسلمانوں کا زوال مسلمانوں کا عروج پچاس سال یعنی واقعہ صفین تک مکمل ہوچکا تھا اور اس کے بعد مسلمانوں میں اندرونی طور پر اختلافات پیدا ہونے لگے ، جس ملوکیت کو مسلمانوں نے ختم کر کے اسلام کا نظام قائم کیا تھا ، وہی ملوکیت خود مسلمانوں میں پیدا ہوگئی ۔ اگرچہ دین کو مجموعی طور پر کافی دیر تک غلبہ حاصل رہا ۔ مگر مسلمانوں میں چوتھی صدی تک کمزوری بڑھ گئی ۔ جب کہ چھٹی صد ی تک ضعف خطرناک حد تک بڑھا ، اور پھر ساتویں صدی میں تارتاریوں کے حملہ سے زوال آ گیا ۔ جس میں وہ آج تک پھنسے ہوئے ہیں ۔ ترک مسلمانوں نے یورپ کی یلغار کا بڑی دیر تک مقابلہ کیا مگر وہ بھی کمزوری کی حالت میں ہی رہے۔ آج مسلمان دنیا کی انتہائی پس ماندہ قوم سمجھی جاتی ہے جن کا نہ کوئی اپنا کلچر ہے ، نہ تہذیب اور نہ اخلاق ، وہ اپنا دماغ اور اپنی سوچ تک گنوا بیٹھے ہیں ۔ اللہ کی کتاب اور اس کا دین اسلام بالکل سچا ہے اور وہ قیامت تک قائم رہے گام مگر اس کے پیروکار ہی اس کے اصولوں کو ترک کر کے ذلیل و خوارہو رہے ہیں ۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ دلیل اور برہان کے لحاظ سے تو دین اسلام ہمیشہ غالب رہا ہے مگر خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اسے سیاسی طور پر بھی تمام ادیان پر غالب کردیا جائے۔ اس دین کے اصول بلا شبہ ناقابل تنسیخ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا تمام اقوام عالم کو چیلنج ہے ۔ فاتوا بسورۃ من مثلہ ( البقرہ : 23) اگر تم سچے ہو تو قرآن پاک جیسی ایک سورة ہی بنا لائو ، مگر یہ چیلنج آج تک کسی نے قبول نہیں کیا جو کہ اللہ کی کتاب اور اس کے دین کی صداقت کی دلیل ہے۔ مسلمانوں کا بحیثیت جماعت فرض تھا کہ دین کے اس سیاسی غلبے کو قائم رکھتے جو خلفائے راشدین ؓ کے زمانے میں حاصل ہوگیا تھا مگر ان کی نا لائقی کی وجہ سے کامیابی بھی ناکامی میں تبدیل ہوگئی ۔ اس سورة سے یہی سمجھانا مقصود ہے کہ لوگو ! واقعہ حدیبیہ فتح خیبر اور پھر فتح مکہ کو پیش نظر رکھو۔ آج بھی تم میں وہی جذبہ اطاعت و جہاد قائم رہنا چاہئے جو مذکورہ مواقع پر مسلمانوں میں موجود تھا۔ جب تک یہ جذبہ موجود تھا۔ دنیا پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور جب یہ جذبہ نرم پڑگیا تو پھر مسلمانوں میں نہ سیاسی غلبہ رہا نہ اخلاقی نہ معاشی اور نہ معاشرتی ، یہ خود دوسروں کے دست نگر بن گئے اور قعر مذلت میں جا گرے۔ فرمایا اللہ کی ذات وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر مبعوث فرمایا ، تا کہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے وکفی باللہ شھیدا ً اور کافی ہے اللہ گواہی دینے والا ۔ اس گواہی سے مراد اللہ کے رسول کی صداقت ، اس کے دین کی سچائی اور مسلمانوں کی اطاعت کی گواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ گوا ہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے دین کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں تو اللہ نے انہیں اخلاقی فتح کے ساتھ ساتھ سیاسی فتح بھی عطا فرمائی ۔ اگر یہ جذبہ اطاعت اب بھی قائم ہوجائے تو اللہ کی فتح و نصرت شامل حال ہوجائے گی ۔ اللہ ہی اس حقیقت پر گواہ کافی ہے۔
Top