Tafseer-e-Madani - Hud : 113
وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ١ۙ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
وَ : اور لَا تَرْكَنُوْٓا : نہ جھکو اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا انہوں نے فَتَمَسَّكُمُ : پس تمہیں چھوئے گی النَّارُ : آگ وَمَا : اور نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : مددگا۔ حمایتی ثُمَّ : پھر لَا تُنْصَرُوْنَ : نہ مدد دئیے جاؤگے
اور کبھی جھکنا نہیں تم (اے ایمان والو ! ) ان لوگوں کی طرف جو اڑے ہوئے ہیں اپنے (کفر و باطل اور) ظلم پر، کہ پھر آپکڑے تم کو دوزخ کی آگ اور اس وقت اللہ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی ہوگا اور نہ ہی تمہیں کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی،5
218 ۔ ظالموں کی طرف جھکنے کی ممانعت : سو اہل ایمان کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا اور تم کبھی جھکنا نہیں ظالموں کی طرف کہ ایسے لوگ تو بہرحال ہلاکت اور تباہی کی راہ پر ہیں۔ پس کھلے کفار و مشرکین کی طرح دوسری گمراہ قوموں اور دوسرے مختلف گروہوں، گروپوں اور فرقوں میں سے کسی کی طرف بھی جھکنا اور ان سے دلی میلان اور لگاؤ رکھنا ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں جو کہ اپنے کفریہ شرکیہ اور ملحدانہ عقائد و نظریات پر اسلام کا لیبل لگا کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ جیسے قادیانی دجال کے پیرو، روافض، چکڑالوی، منکرین حدیث اور اہل حق کی تکفیر کرنے والے وہ قبر پرست اہل بدعت جو ائمہ حرمین شریفین تک کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے اور ان کے بارے میں وہ طرح طرح کی ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ وہ ایسے اور ایسے ہیں وغیرہ۔ والعیاذ باللہ۔ سو ایسے ظالموں اور بہکے بھٹکے لوگوں سے دور و نفور رہنا ہی دین کا تقاضا ہے۔ اور یہی صحت و سلامتی کا راستہ اور دینی غیرت کا مقتضی ہے۔ ورنہ ان کے کفر و شرک کی میل تم پر بھی اثر انداز ہوجائے گی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 219 ۔ ظالموں کی طرف جھکاؤ کا نتیجہ دوزخ۔ والعیاذ باللہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ ظالموں کی طرف کبھی نہیں جھکنا کہ اس کے نتیجے میں تم لوگوں کو دوزخ کی آگ آپکڑے اور اس وقت اللہ کے سوا تمہارا کوئی حامی ہوگا اور نہ ہی تم لوگوں کو کہیں سے کوئی مدد مل سکے گی۔ سو ظالموں کی طرف جھکاؤ اور میلان رکھنے کا نتیجہ و انجام بڑا برا اور نہایت ہولناک ہوتا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب ان ظالموں کی طرف جھکنا اور ان سے کچھ میلان رکھنا بھی اتنا بڑا جرم و گناہ ہے تو پھر ان سے دلی تعلق و دوستی اور بےروک ٹوک روابط و محبت رکھنا اور ان سے رشتے ناطے تک کرنا کس قدر بڑا جرم اور ہولناک گناہ ہوگا ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس میں اہل ایمان کے لیے تنبیہ و تذکیر ہے کہ کسی خوف یا طمع وغیرہ میں آکر ان لوگوں کی طرف مائل نہیں ہوجانا جو کفر و شرک کے ظلم پر اڑے ہوئے ہیں۔ ورنہ دوزخ کی وہی آگ جو ایسے بدبختوں کے لیے مقدر ہے تمہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اور اس وقت اللہ کے مقابلے میں تمہارا کوئی یار و مددگار نہ ہوگا۔ اور (ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ) کے اس جملے سے اس اہم حقیقت کو واضح فرمایا گیا کہ اگر تم لوگ ان کفار و مشرکین کی طرف ذرا بھی مائل ہوئے تو تم خداوند کی اس نصرت سے بھی محروم ہوجاؤ گے جس کا اس نے تم سے اس دنیا میں وعدہ فرما رکھا ہے۔ کیونکہ اس کا یہ وعدہ استقامت کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ اس کے بغیر تم لوگ نصرت خدوندی کے سزاوار نہیں ہوسکتے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی ما یحب ویرید وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔
Top