Urwatul-Wusqaa - Hud : 113
وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ١ۙ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
وَ : اور لَا تَرْكَنُوْٓا : نہ جھکو اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا انہوں نے فَتَمَسَّكُمُ : پس تمہیں چھوئے گی النَّارُ : آگ وَمَا : اور نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : مددگا۔ حمایتی ثُمَّ : پھر لَا تُنْصَرُوْنَ : نہ مدد دئیے جاؤگے
اور ایسا بھی نہ کرنا کہ ظالموں کی طرف جھک پڑو اور (قریب ہونے کے باعث) آگ تمہیں بھی چھو جائے اللہ کے سوا تمہارا کوئی رفیق نہیں پھر کہیں مدد نہ پاؤ گے
ظالموں کی طرف نہ جھک جائو کہ تم کو آگ چھو جائے اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہو ۔ 140 ” ظالموں کی طرف مت جھک پڑو۔ “ یعنی ظالموں کی مداہنت اور خوشامد مت کرو اور نہ ان کے اعمال کو پسند کرو یعنی بد اخلاق ، بد کردار ظالم لوگوں کی مجلسوں میں شامل مت ہو کیونکہ ان کی مجلسوں میں شرکت کرنا عذاب الٰہی کا باعث ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ بروں کی صحبت انسانی کو برا بنا دیتی ہے اور نیکوں کی صحبت نیکی کی طرف رغبت دلاتی ہے ہم اکثر اپنی نادانی سے ان کی صحبت کو بےضرر خیال کرتے ہیں اور اپنی سادہ لوحی سے بےدھڑک ان کے پاس آمد و رفت رکھتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے کہ وہ ہر وقت اس موقع کی تاڑ میں رہتے ہیں کہ جب ہو سکے وہ پھونک مار کر تمہارے ایمان کی شمع کو گل کردیں۔ اس لئے اہل اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ ان بد اخلاقوں اور بد کردار لوگوں کی صحبت سے احتراز کریں۔ اگر تم ایسے لوگوں کی مجلس سے پرہیز نہیں کرو گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ” تمہیں بھی آگ چھو جائے گی۔ “ بری صحبت اور مجلس انجام کار تم کو بھی برا بنا دے گی اور ” اللہ کے سوا تمہارا کوئی رفیق و مددگار نہیں ہوگا پھر کہیں سے بھی مدد نہ پائوں گے۔ “ اور جب اللہ تعالیٰ ہی کسی کا مددگار نہ رہا تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ کہ وہ مذہبی فرقہ بازیوں اور سا سی جتھہ بندیوں اور قبائلی تعصب میں گر کر تباہ و برباد ہوگیا۔
Top