Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 76
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبْكَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ هُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوْلٰىهُ١ۙ اَیْنَمَا یُوَجِّهْهُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ١ؕ هَلْ یَسْتَوِیْ هُوَ١ۙ وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ١ۙ وَ هُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَضَرَبَ : اور بیان کیا اللّٰهُ : اللہ مَثَلًا : ایک مثال رَّجُلَيْنِ : دو آدمی اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَبْكَمُ : گونگا لَا يَقْدِرُ : وہ اختیار نہیں رکھتا عَلٰي شَيْءٍ : کسی شے پر وَّهُوَ : اور وہ كَلٌّ : بوجھ عَلٰي : پر مَوْلٰىهُ : اپنا آقا اَيْنَمَا : جہاں کہیں يُوَجِّهْهُّ : وہ بھیجے اس کو لَا يَاْتِ : وہ نہ لائے بِخَيْرٍ : کوئی بھلائی هَلْ : کیا يَسْتَوِيْ : برابر هُوَ : وہ۔ یہ وَمَنْ : اور جو يَّاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کے ساتھ وَهُوَ : اور وہ عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
اور اللہ (مزید توضیح کے لئے) ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ (فرض کرو کہ) دو شخص ہوں، جن میں سے ایک ایسا گونگا (بہرا) ہے کہ کچھ بھی نہیں کرسکتا، وہ اپنے آقا پر ایک بوجھ ہے، وہ اسے جدھر بھی بھیجے اس سے کوئی بھلا کام نہ بن آئے، تو کیا یہ اور دوسرا وہ شخص برابر ہوسکتے ہیں جو انصاف کا حکم دیتا ہے، اور وہ خود بھی عین سیدھی راہ پر ہے ؟1
153۔ جہالت باعث محرومی و ہلاکت : اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ لوگوں کی اکثریت جانتی نہیں (حق اور حقیقت کو) اس لئے وہ طرح طرح کی گمراہیوں میں مبتلا ہوتے اور اندھیروں میں بھٹکتے ہیں۔ سو جہالت اور دین حق کی تعلیمات مقدسہ سے غفلت وبے خبری جڑ، بنیاد سے تمام خرابیوں اور محرومی و ہلاکت کی۔ والعیاذ باللہ۔ سو یہاں یہ حقیقت پھر آشکارا ہوجاتی ہے کہ عوام الناس کی رائے کسی معاملے کے صحیح یا غلط ہونے کیلئے فیصلہ کن نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ عوام کی اکثریت بہرحال جاہل ہے۔ اور جاہل کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہوسکتا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 154۔ ابطال شرک کیلئے ایک اور مثال کا ذکر وبیان : سو حق کی توضیح مذید کیلئے ایک اور مثال کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور جب یہ دونوں باہم برابر نہیں ہوسکتے اور ہرگز نہیں ہوسکتے تو پھر معبود برحق۔ جل جلالہ۔ اور تمہارے خود ساختہ معبودان باطلہ باہم برابر کس طرح ہوسکتے ہیں ؟ پس یہ مثال معبود برحق اور معبودان باطلہ کے درمیان فرق وتمیز کی توضیح و تشریح کے لئے بیان فرمائی گئی ہے (صفوۃ، ابن کثیر، مراغی، جواہر اور معارف وغیرہ) ۔ اور بعض حضرات مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ مثال کافر اور مومن کے درمیان فرق کی توضیح کیلئے ہے۔ سو کافر اندھے، بہرے اور گونگے غلام کی طرح ہے۔ وہ نہ حق کو دیکھتا ہے نہ سنتا ہے۔ اور وہ ایسا نکما اور اس قدر ناکارہ ہے کہ وہ جہاں بھی جائے اس سے خیر کی کوئی توقع نہیں ہوسکتی۔ اور اس کے مقابلے میں مومن حق کو سنتا، مانتا اور وہ راہ حق و ہدایت پر گامزن رہتا ہے۔ اس کا وجود خیر کا وجود ہے اور وہ اپنے قول وفعل سے دوسروں کو بھی راہ حق و ہدایت کی دعوت دیتا ہے۔ (معارف وغیرہ) والحمد للہ جل وعلا۔
Top