Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ
مَثَلُهُمْ : ان کی مثال کَمَثَلِ : جیسے مثال الَّذِي : اس شخص اسْتَوْقَدَ : جس نے بھڑکائی نَارًا : آگ فَلَمَّا : پھر جب أَضَاءَتْ : روشن کردیا مَا حَوْلَهُ : اس کا اردگرد ذَهَبَ : چھین لی اللَّهُ : اللہ بِنُورِهِمْ : ان کی روشنی وَتَرَکَهُمْ : اور انہیں چھوڑدیا فِي ظُلُمَاتٍ : اندھیروں میں لَا يُبْصِرُونَ : وہ نہیں دیکھتے
ان کی مثال (ان کی محرومی اور بدنصیبی میں) ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی ہو مگر جب اس آگ نے روشن کردیا اس کے آس پاس کو تو اللہ نے سلب کردیا ان کی روشنی کو اور ان کو (بھٹکتا) چھوڑ دیا ایسے اندھیروں میں کہ ان کو کچھ سوجھتا ہی نہیں3
43 منافقوں کے نفاق کی مثال : یعنی جس طرح کسی نے آگ جلائی تاکہ اس کو رات کی ظلمت و تاریکی اور اس سے پیدا ہونے والی وحشت و خوف سے نجات ملے۔ پس یہاں " اِسْتَوْقَدَ " طلب فعل کے لئے نہیں جو کہ باب استفعال کا خاصہ ہے، اور جیسا کہ اس لفظ کے ظاہر سے عموماً سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ یہاں پر یہ لفظ " اَوْقَدَ " کے معنی میں ہے جیسے " اَجَابَ " اور " اِسْتَجَابَ " میں ہے (صفوۃ البیان لمعانی القرآن) ۔ سو ایسے ہی ان منافقوں نے کلمہ حق کا اوپر اوپر سے اقرار کیا، جس سے ان کو ظاہری طور پر کچھ روشنی ملی اور حیات دنیا کی محدود فرصت میں انہوں نے اس سے کچھ فائدے بھی اٹھائے، مگر صدق و اخلاص کے فقدان کی وجہ سے یہ لوگ اس کی روشنی سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکے اور محروم کے محروم ہی رہے، (محاسن التاویل وغیرہ) والعیاذ باللہ جل و علا۔ اور اس محرومی کے نتیجے میں ان کی ذلّت و رسوائی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ایسے لوگ لذت حیات اور پاکیزہ زندگی سے محروم رہیں گے اور آخرت میں جنت کی نعیم مقیم سے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 44 کور باطنی اور سوء اختیار کا برا انجام : یعنی آگ جل گئی اور ان کے لئے اس کے فوائد سے مستفید ہونے کا وقت آگیا تو یہ اپنی کور باطنی اور سوء اختیار کی بناء پر اس سے مستفید ہونے کی بجائے الٹا دوہرے نقصان کا شکار ہوگئے، اور اپنے کفر و نفاق کی بناء پر یہ لوگ " فی الدرک الاسفل من النار " کے مستحق ہوگئے اور یہی نتیجہ اور انجام ہوتا ہے کور باطنی اور سوء اختیار کا، جو کہ بڑا ہی ہولناک اور برا انجام ہوتا ہے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ سو بجائے اس کے کہ لوگ دولت ایمان سے سرفراز ہو کر جنت کے وارث بنتے، یہ دوزخ کے نچلے گڑھے میں جا پڑے اور دائمی خسارے میں مبتلا ہوئے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 45 بدنیتی کا نتیجہ و انجام، محرومی ۔ والعیاذ باللہ : اور اس طرح یہ بدبخت روشنی کے فوائد سے محروم ہوگئے ان کی اپنی بدنیتی اور سوء اختیار کی بناء پر، یہی حال ان منافقین کا ہے کہ ان کو ایمان لانے کا موقع ملا تھا، اور اگر یہ لوگ سچا ایمان لے آتے تو اس سے ایک طرف تو اس فطری داعیہ ایمان کے تقاضے پورے ہوتے، جو حضرت حق جل جلالہُٰ نے اپنی قدرت کاملہ، حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ سے ہر انسان کی فطرت وجبلت میں ودیعت فرما رکھا ہوتا ہے، اور دوسری طرف اس سے ان لوگوں کو اس نبی برحق کی دعوت حق و صداقت پر لبیک کہنے کی سعادت نصیب ہوتی، جو رحمت مجسم بن کر دنیا جہاں کی ہدایت کے لئے تشریف لائے تھے، اور اس طرح ان لوگوں کو دارین کی سعادتوں سے بہرہ مندہونے کا موقع ملتا، اور یہ دنیوی زندگی میں حیات طیبہ کی سعادت کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں دائمی فوز و فلاح سے بھی سرفراز ہوتے، جس سے بڑھ کر کوئی کامیابی متصور ہی نہیں ہوسکتی۔ مگر ان بدبختوں نے اپنی بدنیتی اور سوء اختیار سے سچے ایمان و عقیدہ کی بجائے نفاق کی راہ کو اپنایا، جس سے ان کی وہ وقتی اور عارضی روشنی جو کہ کلمہ ایمان کے اقرار سے ان کو نصیب ہوئی تھی وہ بھی رخصت ہوگئی، اور راہ نفاق پر چل کر ان بدبختوں نے نور فطرت کے اپنے اس اصل سرمایہ کو بھی ضائع کردیا، جو قدرت نے اپنی رحمت و عنایت سے ان کے اندر ودیعت فرمایا تھا، کیونکہ قانون فطرت اور ضابطہ قدرت یہی ہے کہ جو جدھر چلے گا اس کو ادھر ہی دھکیل دیا جائے گا { نُوَلِّہٖ مَاَ تُوَلّٰی } ۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ ۔ نیز جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ، وَاللَّہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ } ۔ " پھر جب وہ خود پھرگئے تو اللہ نے پھیر دیا ان کے دلوں کو، کہ اللہ ایسے بدکاروں کو (نعمتِ ) ھدایت سے سرفراز نہیں فرماتا " کیونکہ ہدایت کی یہ انمول اور بےمثل دولت جو سب سے بڑی دولت ہے اس واھب مطلق کے یہاں سے بالکل مفت تقسیم ہوتی ہے، مگر یہ ملتی طلب صادق پر ہی ہے، اور اس سے یہ لوگ محروم ہیں ۔ وَالْعِیَاذُ باِللّٰہ ۔ اس طرح اپنے اس خسارہ و نقصان کے باعث و ذمہ دار یہ لوگ خود ہیں، ورنہ اللہ پاک کے یہاں سے تو کسی کے لئے محرومی ہے ہی نہیں، وہاں سے تو عطاء ہی عطاء اور بخشش ہی بخشش ہے، اور لگاتار اور بےحد و حساب عطا و بخشش ہے۔ دن رات کے ہر حصے میں اور وقت کے ہر لمحہ و لحظہ میں بخشش ہی بخشش ہے، کہ اس کی شان و صفت ہے " سَخَّائُ اللَّیْل وَ النَّہَارِ " ہے اور اس کے دونوں ہاتھ (جو اس کی شان اقدس و اعلیٰ کے لائق ہیں) ہر وقت کھلے ہیں { بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتَان } مگر یہ بندوں کی اپنی غلط روی اور حرمان نصیبی ہے کہ وہ باختیار و ارادہ خود محروموں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ سو ان منافقین کی یہ محرومی بھی خود ان کی اپنی ہی اختیار کردہ ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { ذَالِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ٰثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلَی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لاَ یَفْقَہُوْنَ } ۔ " یہ اس لئے کہ یہ لوگ [ اولاً ظاہری طور پر ] ایمان لائے پھر انہوں نے کفر کیا تو (قانون مکافات سے) ان کے دلوں پر مہر کردی گئی، پس یہ ( حق اور حقیقت کو) سمجھتے ہی نہیں " (المنافقون :3) آیت کریمہ کی یہ تفسیر جو اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے ہم نے اختیار کی ہے اس پر { اَلَّذِیْ } کا اسم موصول جمع کے معنی میں ہوگا یعنی { الَّذِیْنَ } جیسا کہ { وَخُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُوْا } (التوبہ : 69) میں ہے (جامع البیان، محاسن التاویل وغیرہ ) ۔ اور آیت کریمہ میں اس کے بعد آنے والے کلمات کا جمع کی صورت میں آنا بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے، اور جہاں مفرد کے صیغے استعمال ہوئے ہیں، جیسا کہ " اِسْتَوْقَدَ " اور " مَا حَوْلَہ " وہاں پر اس کے لفظ اور ظاہرکا لحاظ کیا گیا ہے، جیسا کہ ۔ { وَمِنَ النَّاس مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰہ } ۔ میں ہے، کہ اس میں " مَنْ " کے ظاہر کے اعتبار سے " یَقُوْلُ " مفرد کا صیغہ لایا گیا ہے، اور معنی کے اعتبار سے " اٰمَنَّا " جمع کا۔ ایسے ہی یہاں بھی سجھا جائے ۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہ الَّذِیْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلّ شَیْئٍ ۔ اللہ تعالیٰ بدنیتی اور خبث باطن کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور ہمیشہ اپنی مرضیات پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔ 46 باطن کے ہولناک اندھیروں اور ان کے انجام کا ذکر وبیان : سو اس سے کفر و شرک اور شک و نفاق کے باطنی اندھیروں اور ان کے ہولناک انجام کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے۔ یعنی کفر و شرک اور شک و نفاق کے ان گھٹا ٹوپ اندھیرے جن میں ڈوب کر یہ لوگ حق و حقیقت کی روشنی اور اس کے فہم و ادراک سے محروم ہوگئے، اور اس طرح یہ دائمی ناکامی و نامرادی سے دو چار ہوگئے، اور اس کے نتیجے میں آخرت کی حیات ابدی میں انہیں دوزخ کے " درک اسفل " کے ان ہولناک اندھیروں میں رہنا ہوگا جن کی ہولناکی کا پوری طرح تصور و ادراک بھی یہاں کسی کے لئے ممکن نہیں، سو کفر و نفاق کے یہ اندھیرے ظاہری اور حسی اندھیروں سے کہیں بڑھ کر ہولناک اور تباہ کن ہیں، مگر مادہ پرست دنیا جو ظاہری اور حسی اندھیروں کے خلاف طرح طرح کے جتن کرتی ہے، وہ کفر و نفاق کے ان غیر محسوس اندھیروں سے بالکل غافل و لاپرواہ اسی ہولناک ہلاکت و تباہی کی طرف چلی جارہی ہے، اور ان کو اس کا احساس و شعور تک نہیں کہ وہ اپنے لیے کس قدر ہولناک انجام کا سامان کررہے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو غفلت و لاپرواہی محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 47 نور ایمان سے محرومی سب سے بڑی محرومی والعیاذ باللہ : ـ نور ایمان سے محرومی کے ہولناک آثار و نتائج کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے، سو نور ایمان سے محروم لوگ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پڑے بھٹک رہے ہیں، نہ ان کو اپنی منزل مراد کا پتہ، نہ اس تک پہنچانے والی سیدھی راہ کی خبر، نہ اپنے مقصد زندگی کا علم، نہ اپنی مسؤلیت و ذمہ داری سے آ گہی، اور نہ آنے والے وقت کی شدت اور اس کی ہولناکی کا کوئی احساس، اور نہ اپنے اس ہولناک انجام و نقصان کا کوئی فکر و خیال، کہ اشرف المخلوقات کی منزل و شرف سے گر کر یہ لوگ { کَالاَنْعَام بَلْ ہُمْ اَضَلُ } کی حضیض مذلّت اور قعر ہلاکت میں پڑگئے، بتائیے کہ اس سے بڑھ کر کسی نقصان کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے ؟ مگر یہ لوگ ہیں کہ ان کو اس قدر اہم ان بنیادی امور سے متعلق کچھ سوجھتا ہی نہیں، اور جو ان کو ان ہولناک خساروں سے آگاہ کرے اس کی بات ایسے لوگ نہ سننے کو تیار ہوتے ہیں، اور نہ ہی وہ ان کی کھوپڑی میں اترتی اور ان کے دماغ تک پہنچتی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top