Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى١۪ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
أُولَٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِينَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : خرید لی الضَّلَالَةَ : گمراہی بِالْهُدَىٰ : ہدایت کے بدلے فَمَا رَبِحَتْ : کوئی فائدہ نہ دیا تِجَارَتُهُمْ : ان کی تجارت نے وَمَا کَانُوا : اور نہ تھے مُهْتَدِينَ : وہ ہدایت پانے والے
یہ وہ (بد بخت) لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو اپنایا ہدایت کے بدلے میں پس نہ ان کو نفع دیا ان کی اس تجارت نے اور نہ ہی یہ ہدایت پانے والے ہیں،
39 نور حق و ہدایت سے محرومی کا نتیجہ اندھیروں میں بھٹکنا ہے۔ والعیاذ باللہ : سو نور حق و ہدایت سے محرومی سب سے بڑی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ کیونکہ راہ حق سے محرومی کا لازمی نتیجہ جگہ جگہ بھٹکنا اور طرح طرح سے دھکے کھاتے رہنا ہے، پھر اس گمراہی پر دنیوی مال و دولت اور جاہ و اقتدار کا ملنا ایسے لوگوں کو اور زیادہ اندھا کردیتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک ہیں، ورنہ ہمیں یہ سب کچھ کیوں ملتا، سو دنیوی ترقی اور مال و دولت کا یہ پہلو بہت ہی خطرناک ہوتا ہے، کہ اس کی بنا پر برخود غلط لوگ حق سے اور زیادہ دور اور محروم ہوتے چلے جاتے ہیں، حالانکہ یہ ان کے لئے کوئی انعام نہیں ہوتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مار اور پھٹکار ہوتی ہے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا : " کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں جو مال اور اولاد میں ترقی دیتے ہیں یہ کوئی (ان کے لئے بھلائی کا سامان کر رہے ہیں ؟ اور) ان کو فائدہ پہنچانے میں جلدی کر رہے ہیں ؟ (نہیں، ) بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں " (المومنون : 55 ۔ 56) واضح رہے کہ " یَعْمَہُوْنَ " " عَمَہ " سے ماخوذ ہے جو کہ رائے اور باطن کے اندھے پن ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے، جبکہ " عمی "، عام ہے مگر اس کا زیادہ تر استعمال ظاہری اندھے پن ہی کے لئے ہوتا ہے (کشاف اور فتح وغیرہ) ۔ اللہ پاک اندھے پن کی ان دونوں قسموں اور صورتوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے، آمین۔ سو نور حق و ہدایت سے محرومی کی ایک نقد سزا انسان کو یہ ملتی ہے کہ وہ اندھیروں میں ہی بھٹکتا رہتا ہے، والعیاذ باللہ العظیم جل وعلا من کل زیغ و ضلال وسوء و انحراف ۔ سو نور حق و ہدایت سے محرومی ۔ والعیاذ باللہ ۔ ہر خیر سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ 40 سخت خسارے کے سودے کی نشاندہی ۔ والعیاذ باللہ : سو ہدایت کے بدلے میں گمراہی کا سودا سب سے برا اور نہایت ہی خسارے کا سودا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس سے واضح فرمادیا گیا کہ سب سے برا سودا ہدایت کے بدلے میں گمراہی کا سودا سب سے برا، سخت خسارے کا اور انتہائی محرومی کا سودا ہے۔ سو ان لوگوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی کو اپنا کر سخت خسارے کا سودا کرلیا، یعنی اس دولت ہدایت کے بدلے میں جو کہ حضرت خالق جَلَّ وَ عَلَا اور وھّاب مُطْلَق سْبحَانٰہ و تعالیٰ نے اپنے کرم بےپایاں سے ان کی فطرت میں ودیعت فرمائی تھی، جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ ہر بچہ فطرتاً مسلمان پیدا ہوتا ہے اور اس فطری و جبلی ھدایت کو جلا بخشنے کے لئے ان بدنصیبوں کو اس نبی اکرم ﷺ کی صحبت کی سعادت بھی نصیب ہوئی تھی، جو کہ نبیوں کے بھی امام و پیشوا تھے، اور جن کی درفشانی ذروں کو بھی آفتاب بنا دینے کی قوت و تاثیر رکھتی تھی، مگر ان بدبختوں نے اپنے خبث باطنی اور سوء اختیار کی بنا پر، ہدایت کی دولت عظمیٰ سے بہرہ ور اور فیضیاب ہونے کی بجائے کفر و انکار کو اپنایا، اور اس پر ایسے اڑ گئے کہ اپنے اندر موجود تخم ہدایت کو بھی ضائع کردیا، جو کہ خساروں کا خسارہ ہے، اور اس طور پر کہ اس ہولناک خسارے کا انکو کوئی شعور و احساس ہی نہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ العظیم ۔ 4 1 نور ہدایت سے محرومی ہر خیر سے محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو نور حق و ہدایت سے محرومی ہر خیر سے محرومی اور سراسر خسارے کا سودا ہے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا ۔ سو ان بدبختوں نے وہ سودا کیا جس میں نفع دینے والی بات سرے سے تھی ہی نہیں کہ انہوں نے ہدایت جیسی نعمت عظمیٰ کی بجائے ضلالت و گمراہی جیسی منبع شرو فساد اور موجب ہلاکت چیز کو گلے لگا لیا، تو پھر اس میں کسی نفع کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے، سو دولت حق و ہدایت سے محرومی سراسر خسارے کا سودا ہے۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ ۔ کہ نور حق و ہدایت کی دولت وہ دولت ہے جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ ور و سرفراز کرتی ہے، جبکہ اس سے محرومی پر انسان تہہ در تہہ اندھیروں میں ڈوب کر دارین کے خسارے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی خسارے کا تصور بھی ممکن نہیں کہ انسان نور حق و ہدایت سے محروم ہو کر تہ در تہ اندھیروں میں ڈوب جائے۔ نہ اس کو اپنی زندگی کے اصل مقصد و نصب العین کا پتہ اور نہ اپنی منزل مقصود کی خبر اور نہ راہ حق و صواب سے کوئی علم و آگہی۔ اور وہ خواہشات بطن و فرج کی تکمیل کو ہی اپنا اصل مقصد بنا کر اور اسی کو سب کچھ سمجھ کر حیوان محض اور " شر البریۃ " یعنی بدترین مخلوق بن کر رہ جائے۔ سو نور حق و ہدایت سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 42 انسان کے بناؤ، بگاڑ کا اصل مدار اس کے قلب و باطن پر : سو طلب صادق اور حسن نیت سے محرومی ہولناک محرومی ہے : کیونکہ ہدایت کی دولت سے سرفرازی تب نصیب ہوسکتی ہے جبکہ اس کے لئے انسان کے اندر طلب صادق پائی جاتی ہو، اور اس سے یہ لوگ بوجہ اپنے عناد و استکبار، اور اپنے سوء اختیار کی بناء پر محروم ہیں، تو پھر ان کو حق و ہدایت کی دولت ملے تو کیسے اور کیونکر ملے ؟ والعیاذ باللہ۔ اور راہ حق و ہدایت سے محرومی کے بعد جس راستے کو انہوں نے اپنایا ہے، وہ دارین کے خسارے اور ابدی ہلاکت و تباہی کا راستہ ہے، سو طلب صادق اور حسن نیت سے محرومی ایک بڑی ہی ہولناک محرومی ہے والْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ سو اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کے صلاح و فساد اور اس کے بناؤ و بگاڑ کا اصل تعلق اس کے قلب و باطن سے ہے۔ جیسا کہ دوسری مختلف نصوص میں بھی اس کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے۔ پس اصلاح قلب و باطن اصل الاصول ہے ۔ فایاہ نسال سبحانہ وتعالیٰ التوفیق لما یحب ویرضی وعلی ما یحب ویرضی جل جلالہ وعم نوالہ -
Top