Tafseer-e-Madani - Al-Muminoon : 47
فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَۚ
فَقَالُوْٓا : پس انہوں نے کہا اَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لے آئیں لِبَشَرَيْنِ : دو آدمیوں پر مِثْلِنَا : اپنے جیسا وَقَوْمُهُمَا : اور ان کی قوم لَنَا : ہماری عٰبِدُوْنَ : بندگی (خدمت) کرنے والے
چناچہ انہوں نے کہا کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں ؟ اور وہ بھی اس حال میں کہ ان کی قوم کے لوگ ہماری غلامی کر رہے ہیں
64 پیغمبر کی بشریت کی بنا پر ان پر ایمان لانے سے انکار : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے کہا " کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں "۔ یعنی ایسے نہیں ہوسکتا۔ یعنی وہی غلط فہمی جو گمراہوں اور باطل پرستوں کو ہمیشہ رہی کہ نبوت اور بشریت دونوں جمع نہیں ہوسکتیں۔ لہذا ہم اپنے ہی جیسے ان دونوں شخصوں کو نبی نہیں مان سکتے۔ اس کے برعکس آج کے بعض جاہلوں کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ حضرات نبی تھے اس لئے وہ بشر نہیں ہوسکتے۔ حالانکہ عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے کہ حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ بیک وقت نبی بھی ہوتے ہیں اور بشر بھی۔ اور ان دونوں صفتوں کا اجتماع ہی عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا ہے۔ جیسا کہ ابھی کچھ ہی اوپر گزرا۔ بہرکیف فرعون اور اس کے درباریوں اور سرداروں نے کہا کہ کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں ؟ یعنی ایسے کبھی نہیں ہوسکتا۔ 65 فرعونیوں کے استکبار کے ایک اور سبب کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے کہا کہ " کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں اور خاص کر جبکہ ان کی قوم ہماری غلامی میں لگی ہوئی ہے۔ یعنی ایسے نہیں ہوسکتا کہ ہم ایسے دو شخصوں پر ایمان لے آئیں جو بشر ہونے کے علاوہ تعلق بھی اس قوم سے رکھتے ہیں جو ہماری غلام ہے۔ اس طرح تو ہماری عظمت اور شان میں اور بھی فرق آجائے گا اور ہمارا خسارہ اور بھی زیادہ ہوجائے گا۔ سو یہ نتیجہ وثمرہ ہوتا ہے تکبر اور انانیت کا کہ اس سے آدمی کی کھوپڑی الٹی اور اوندھی ہوجاتی ہے اور وہ حق سے اور زیادہ دور ہوتا چلا جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس سے ان لوگوں کے اعراض و استکبار کے ایک اور سبب کا ذکر فرمایا گیا ہے اور یہ فرعون اور اس کے سرداروں کی اس سرکشی اور ان کے کبر و غرور کا ایک اور ثبوت تھا جس سے وہ حق سے محروم رہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top