Tafseer-e-Majidi - Al-Muminoon : 47
فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَۚ
فَقَالُوْٓا : پس انہوں نے کہا اَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لے آئیں لِبَشَرَيْنِ : دو آدمیوں پر مِثْلِنَا : اپنے جیسا وَقَوْمُهُمَا : اور ان کی قوم لَنَا : ہماری عٰبِدُوْنَ : بندگی (خدمت) کرنے والے
چناچہ وہ بولے کیا ہم اپنے ہی جیسے دو انسانوں پر ایمان لے آئیں درآنحالیکہ ان کی قوم (بھی) ہمارے زیر حکم ہے،44۔
44۔ یعنی ایک تو یہ دونوں یوں ہی محض بشر ہیں ہمارے ہی جیسے۔ کوئی فوق البشر نہیں، کوئی دیوتا نہیں اور پھر بشر بھی کیسے ایسے پست و حقیر کہ ان کی قوم کی قوم ہماری محکوم و غلام ہے۔ اسے تو آزاد کر اسکے نہیں اور چلے ہیں ہمارے سامنے پیغمبری کا دعوی کرنے ! شامت زدہ قوموں کی ہمیشہ یہ شامت رہی ہے کہ اصل مسئلہ پر خلوئے ذہن کے ساتھ غور ہی نہیں کرتے۔ صحیح تنقیح کو سامنے لاتے ہی نہیں۔ غیر متعلق اور دوسرے مسائل میں الجھ جاتے ہیں۔ (آیت) ” وقومھما لنا عبدون “۔ حکمران ظاہر ہے کہ فرعون تھا نہ کہ اس کی ساری قوم، لیکن وہی نفسیت بشری جو آج پھیلی ہوئی ہے اس وقت بھی تھی، یعنی حکمران قوم کا ایک ایک فرد اپنے کو بھی بجائے خود حکمران سمجھ رہا تھا اور پھر یہاں تو فرعون کے ارکان دربار کا ذکر ہے۔ یہ تو بہرحال اپنے کو حاکم سمجھتے ہی۔ اور اپنی ” محکوم رعایا “۔ کے ایک ایک فرد کو ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھتے ہی۔
Top