Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 51
اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ اَنْ كُنَّاۤ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ۠   ۧ
اِنَّا نَطْمَعُ : بیشک ہم امید رکھتے ہیں اَنْ : کہ يَّغْفِرَ : بخش دے لَنَا : ہمیں رَبُّنَا : ہمارا رب خَطٰيٰنَآ : ہماری خطائیں اَنْ كُنَّآ : کہ ہم ہیں اَوَّلَ : پہلے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
ہم تو اس امید سے پوری طرح سرشار ہیں کہ ہمارا رب بخش دے گا اپنے رحم و کرم سے ہماری خطاؤں کو کہ اس بھرے مجمع میں سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت ہم ہی کو نصیب ہوئی ہے۔1
33 نور ایمان و یقین سے بعد پر جواب : سو ان مومنین صادقین نے فرعون کی اس دھمکی کے جواب میں اس سے کہا کہ ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہمیں تو اپنے رب سے اپنی خطاؤں کی معافی کی امید ہے۔ اور حسن ادب ملاحظہ ہو کر کوئی شوخی یا تکبر نہیں بلکہ نہایت متواضعانہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہمیں تو اپنے رب کی رحمت و ربوبیت سے قوی امید ہے کہ وہ ایمان میں پہل کرنے کی اس سعادت کے باعث جو ہمیں نصیب ہوئی ہے ہمارے گناہ معاف فرما دے گا ۔ فَسُبْحَان اللّٰہِ مِنْ عَظَمَۃِ الاِیْمَانِ و ہَدَایِتَہ ۔ بہرکیف انہوں نے کہا کہ چونکہ ہم اپنی قوم یعنی قبط میں سے سب سے پہلے ایمان لانے کے شرف سے مشرف ہوئے ہیں۔ اس لیے اس سبق فی الایمان کی بنا پر اپنے رب سے امید ہے کہ ہمارا رب ہماری خطائیں معاف فرما دے گا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو تیرے نزدیک تو اے فرعون یہ ہمارا سب سے بڑا جرم ہے کہ ہم سب سے پہلے ایمان لے آئے۔
Top