Mutaliya-e-Quran - Ash-Shu'araa : 51
اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ اَنْ كُنَّاۤ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ۠   ۧ
اِنَّا نَطْمَعُ : بیشک ہم امید رکھتے ہیں اَنْ : کہ يَّغْفِرَ : بخش دے لَنَا : ہمیں رَبُّنَا : ہمارا رب خَطٰيٰنَآ : ہماری خطائیں اَنْ كُنَّآ : کہ ہم ہیں اَوَّلَ : پہلے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کر دے گا کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں"
اِنَّا [ بیشک ہم ] نَــطْمَعُ [ آرزو کرتے ہیں ] اَنْ [ کہ ] يَّغْفِرَ [ بخش دے ] لَنَا [ ہمارے لئے ] رَبُّنَا [ ہمارا رب ] خَطٰيٰنَآ [ ہماری خطاؤں کو ] اَنْ [ (اس سبب سے) کہ ] كُنَّآ [ ہم ہوئے ] اَوَّلَ الْمُؤْمِنِيْنَ [ ایمان لانے والوں کے پہلے ] نوٹ۔ 1: آیت۔ 51 اور 52 ۔ کے درمیان سرگزشت کا کچھ حصہ محذوف ہے۔ قرآن اور تورات ، دونوں کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ اس مقابلہ میں شکست کھانے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ایک عرصے تک کشمکش چلتی رہی۔ اس دوران میں مصر پر بہت سی آفتیں نازل ہوئیں جن سے ملک تباہی کے کنارے آلگا۔ مجبور ہوکر فرعون نے بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت تو دے دی لیکن جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پوری قوم کو لے کر نکلے تو اس کی رائے بدل گئی اور اس نے تعاقب کا فیصلہ کیا۔ آیت۔ 52 ۔ میں اسی صورت حال کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی ہدایت کردی کہ تم راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر نکل جاؤ اور ساتھ ہی اس بات سے بھی آگاہ کردیا کہ اگرچہ فرعون نے تم کو جانے کی اجزت دے دی ہے لیکن اس کے باوجود تعاقب کیا جائے گا۔ (تدبر قرآن)
Top