Tafseer-e-Madani - An-Naml : 33
قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّ اُولُوْا بَاْسٍ شَدِیْدٍ١ۙ۬ وَّ الْاَمْرُ اِلَیْكِ فَانْظُرِیْ مَا ذَا تَاْمُرِیْنَ
قَالُوْا : وہ بولے نَحْنُ : ہم اُولُوْا قُوَّةٍ : قوتے والے وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍ : اور بڑے لڑنے والے وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ : اور فیصلہ تیری طرف (میرے اختیار میں) فَانْظُرِيْ : تو دیکھ لے مَاذَا : کیا تَاْمُرِيْنَ : تجھے حکم کرنا ہے
انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو بڑے طاقتور سخت لڑنے والے لوگ ہیں اس لیے خوف کی تو کوئی بات نہیں آگے آپ کی مرضی آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم دینا ہے۔
29 درباریوں کا مشورہ اور ملکہ کو رائے : سو ان لوگوں نے ملکہ سے کہا کہ " ہم بڑے طاقتور اور جنگجو لوگ ہیں آگے آپ کی مرضی "۔ یعنی ہمارا کام رائے دینا نہیں، مرنا مارنا ہے۔ رائے قائم کرنا اور فیصلہ دینا تو آپ کا اپنا کام ہے۔ ہم تو بس حکم کے منتظر ہیں۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ کسی سے دبنے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم بڑے طاقتور اور سخت لڑنے والے جنگجو لوگ ہیں۔ ہمارے پاس وسائل جنگ بھی وافر مقدار میں موجود ہیں اور رجال کار کی بھی کوئی کمی نہیں۔ لہذ اگر جنگ کی نوبت آئی تو ہم حریف سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ سو { اولو قوۃ } سے انہوں نے اپنی عددی قوت و کثرت اور وسائلِ جنگ کی فراوانی کی طرف اشارہ کیا اور { اولوا باس شدید } سے اپنی جنگی مہارت و بصیرت اور جرات و بسالت کی طرف۔ اور جنگ میں یہی دو چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ سو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ درباریوں کا رحجان جنگ کی طرف تھا اور اس طرح انہوں نے اپنا یہ رحجان مدلل طور پر ملکہ کے سامنے پیش کردیا۔ لیکن آگے حتمی فیصلے اور آخری رائے کا معاملہ اسی کے حوالے کردیا اور اس کو اس بارے پورا اختیار دے دیا گیا۔ اور یہی طریقہ ہوتا ہے دربار شاہی میں اپنی رائے پیش کرنے کا۔
Top