Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 105
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَؕ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا : یا تم مانگتے ہو ان سے کوئی اجر فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ : تو وہ تاوان سے مُّثْقَلُوْنَ : بوجھل ہورہے ہیں
کیا تم ان سے کسی عوض کے طالب ہو کہ وہ اس تاوان کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں !
(ام تسلھم اجوا فھم من مغرم متقلون (40)۔ (مخالفین کی حق بیزاری پر تعجب) یہ ان لوگوں کی حق بیزاری پر اظہار تعجب ہے کہ آخر یہ تمہاری بات سنتے کیوں نہیں ؟ اپنی بات سنانے پر تم ان سے کسی تنخواہ یا معاوضہ کے طالب تو ہو نہیں کہ اس کے بوجھ تلے یہ دبے جا رہے ہوں یا تم تو اپنے رب کی نعمت مفت بانٹ رہے ہو تو ان کو کیا حرج ہوتا ہے کہ وہ اس کے سننے کے بھی روادار نہیں۔ یہ امر واضح رہے کہ جہل کے مقابل میں علم بہر حال ایک محبوب و مطلوب شے ہے، کوئی سلیم الفطرت نہ یہ گوارا کرتا اور نہ اسے گوارا کرنا چاہیے کہ اس کے سامنے اس چیز کا علم پیش کیا جائے جس سے وہ بیخبر ہے اور وہ اس کے سننے کا بھی روادار نہ ہو۔ ایسے شخص کی مثال اس اندھے کی ہے جو ٹھوکریں کھا رہا ہے لیکن کوئی اس کو راستہ پر لانا چاہتا ہے تو اس کے ہاتھ وہ جھٹک دیتا ہے۔ اہل عرب امی، یعنی دین و شریعت سے بیخبر تھے۔ ان کی اس بیخبر ی کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اللہ کی ہدایت معلوم کرنے کے طالب بنتے بالخصوص جب کہ ان کے ہاں حضرت اسماعیل ؑ کے زمانے سے یہ روایت بھی چلی آرہی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے اندر سے ایک رسول اٹھائے گا، جو لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے گا اور جس سے دنیا کی تمام قومیں ہدایت پائیں گی۔ ان پر واجب تھا کہ جب انہی کے اندر کے ایک بہترین شخص نے ان کو اللہ کے راستہ کی دعوت دی تو وہ اس کی بات سنتے اور سنجیدگی سے اس پر غور کرتے لیکن توقع کے خلاف انہوں نے اس کے بالکل خلاف روش اختیار کی۔ ان کی اسی حالت پر قرآن نے اس آیت میں تعجب کا اظہار فرمایا ہے۔
Top