Ruh-ul-Quran - At-Tur : 40
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَؕ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا : یا تم مانگتے ہو ان سے کوئی اجر فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ : تو وہ تاوان سے مُّثْقَلُوْنَ : بوجھل ہورہے ہیں
کیا آپ ان سے کوئی عوض مانگتے ہو کہ وہ اس تاوان کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں
اَمْ تَسْئَلُھُمْ اَجْرًا فَھُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ ۔ (الطور : 40) (کیا آپ ان سے کوئی عوض مانگتے ہو کہ وہ اس تاوان کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں۔ ) آپ ﷺ سے سوال کی صورت میں مخالفین کے رویئے کی مذمت سوال بظاہر آنحضرت ﷺ سے ہے لیکن روئے سخن کفار کی طرف ہے۔ آنحضرت ﷺ سے یہ پوچھا جارہا ہے کہ آپ جو انھیں اللہ تعالیٰ کا دین سکھا رہے ہیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کی مرضیات سے آگاہ کررہے ہیں اور ان کی زندگی کی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھا رہے ہیں۔ اور انھیں باطل کی تاریکیوں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی معرفت کی روشنی میں لارہے اور اس کے لیے آپ نے اس قدر دلسوزی، ہمدردی اور فکرمندی سے کام کیا ہے کہ اس سلسلے میں آپ کا اپنا کاروبار تباہ ہوگیا، آپ کی صحت متأثر ہوئی جارہی ہے۔ شب و روز اس کام کے سوا آپ کو کسی بات کی فکر نہیں۔ تو کیا اس پر آپ ان سے کوئی معاوضہ مانگتے ہیں اور وہ معاوضہ اتنا بڑا ہے کہ جس کے بوجھ تلے وہ دبے جارہے ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں تو پھر آپ کے لائے ہوئے دین سے ان کی بیزاری اور آپ کی دعوت و تبلیغ سے ان کے تنفر کی وجہ کیا ہے۔ حالانکہ یہ لوگ اپنی ذات میں اُمّی ہیں جن کے پاس علم کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اگر کوئی صاحب علم ان کو علم کی روشنی سے بہرہ ور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص کسی اندھے کا ہاتھ پکڑ کر اسے منزل تک پہنچانا چاہتا ہے۔ تو ان لوگوں کو تو آپ کا شکرگزار ہونا چاہیے اور علم کی اس مشعل کو اٹھا کر خود اسے گھر گھر پہنچانے کی فکر کرنی چاہیے چہ جائیکہ وہ آپ کی دشمنی پر اتر آئیں جبکہ ان ہی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دین کے نام پر دنیا کما رہے ہیں۔ لیکن آپ نے ان کی خیرخواہی اور ہمدردی کے لیے اپنی دنیا اجاڑ لی ہے۔ اس کے باوجود یہ آپ سے بھاگتے ہیں اور دین کے سوداگروں کے پاس جاتے ہیں۔
Top