Tafseer-e-Madani - At-Tur : 40
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَؕ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا : یا تم مانگتے ہو ان سے کوئی اجر فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ : تو وہ تاوان سے مُّثْقَلُوْنَ : بوجھل ہورہے ہیں
کیا آپ ان سے کوئی اجر مانگتے ہیں ؟ کہ یہ چٹی کے بوجھ سے دبے جا رہے ہیں ؟
[ 50] پیغمبر (علیہ السلام) کی دعوت حق قطعی طور پر بےلوث : سو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر (علیہ السلام) کی دعوت قطعی طور پر بےلوث ہے اور محض نصح و خیر خواہی کے جز بےپر مبنی ہے، چناچہ منکرین کی بےقدری اور ناشکری پر اظہار تعجب کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ کیا آپ ان سے کوئی مانگتے ہیں ؟ یعنی اجراً عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی کسی بھی قسم کا کوئی اجر و معاوضہ، خواہ وہ نوٹ اور ووٹ کی شکل میں ہو، یا کسی اور صلہ و ستائش کی صورت میں، اور ظاہر ہے کہ ایسا بھی نہیں کہ آپ ﷺ ان اسے اس طرح کا کوئی اجر و صلہ بھی نہیں مانگتے، تو پھر ان لوگوں کے نہ ماننے کی آخر وجہ کیا ہے ؟ سوائے عناد اور ہٹ دھرمی کے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو یہاں سے پیغمبر کی دعوت و تبلیغ کی عظمت شان کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا ہر کام خالص اللہ تعالیٰ کیلئے ہوتا ہے، وہ کسی سے کوئی اجر و صلہ کبھی نہیں مانگتے، بلکہ ان کا سارا کام للّٰہیت پر مبنی اور رضائے الٰہی کے حصول اور اس سے سرفرازی کیلئے ہوتا ہے۔ علی نبینا وعلی سائرھم الصلوٰۃ والسلام۔ سو ایسے میں ان کی عورت سے منہ موڑنا خود ایسے منکرین و مکذبین ہی کا خسارہ ہے۔ دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے، سو اس طرح انکار حق کے نتیجے میں انسان " خسر الدنیا والاخرۃ " کا مصداق بن جاتا ہے اور یہی ہے سب سے بڑا خسارہ۔ وذالک ھو الخسران المبین، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ [ 51] منکرین کی مت ماری کا ایک اور نمونہ و مظہر : کہ یہ لوگ حق کی اس دولت سے منہ موڑ رہے ہیں جو ان کو بالکل مفت مل رہی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا آپ ﷺ ان سے کوئی اجر مانگتے ہیں کہ یہ اس کی چٹی کے بوجھ تلے دے چلے جا رہے ہوں ؟ اور ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کا ان سے ایسا کوئی مطالبہ بھی نہیں، پھر کسی بوجھ کے محسوس کرنے کا کیا سوال ؟ یہاں پر خطاب اگرچہ آنحضرت ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے لیکن سنانا دراصل ان منکرین اور مخالفین کو ہے، جو حق سے منہ موڑے ہوئے ہیں کہ ان کے اس انکار و اعراض اور کفر و تکذیب کا وبال اور نقصان ہر لحاظ سے خود انہی لوگوں کو پہنچے گا۔ اور نبی اکرم ﷺ کو خطاب کرکے کفار و منکرین کو سنانے کے اس اسلوب میں بلاغت کو یہ نکتہ کارفرما ہے، کہ منکرین حق اس قابل ہی نہیں کہ ان کو مخاطب کرکے ان سے یہ بات کہی جائے، کہ حق کے انکار اور اس سے منہ موڑنے کے بعد انسان شرف انسانیت شرف عظیم سے گر کر حضیض مذلت میں جا پہنچتا ہے اور اس قدر ذلیل ہوجاتا ہے کہ شر البریۃ [ بدترین مخلوق ] بن جاتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ بہرکیف اس سے منکرین کی اس بےقدری اور مت ماری کا ایک اور نمونہ پیش فرمایا گیا ہے کہ ان کے پاس اللہ کے رسول علم و حکمت کی دولت بےمثال و لازوال لے کر آگئے مگر یہ ہیں کہ اس دولت بےمثال سے منہ موڑ رہے ہیں جو کہ سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ اور واحد ذریعہ وسیلہ ہے، بغیر کسی اجر و عوض کے ان لوگوں کے درمیان بانٹنا اور تقسیم کرنا چاہتے ہیں، مگر یہ لوگ ہیں کہ اس کے سننے کے بھی روا دار نہیں حالانکہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ یہ لوگ اس انعام عظیم کے آگے جھک جھک جائے اور دل و جان سے ان کو قبول کرتے اور اس طرح اپنے لئے سعادت دارین سے سرفرازی کا سامان کرتے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ،
Top