Tafseer-e-Madani - An-Naml : 52
فَتِلْكَ بُیُوْتُهُمْ خَاوِیَةًۢ بِمَا ظَلَمُوْا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
فَتِلْكَ : اب یہ بُيُوْتُهُمْ : ان کے گھر خَاوِيَةً : گرے پڑے بِمَا ظَلَمُوْا : ان کے ظلم کے سبب اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی لِّقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں
سو یہ ہیں ان کے گھر ویران پڑے ہوئے اس ظلم کی پاداش میں جو کہ وہ لوگ کرتے رہے تھے، بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں1
56 درس عبرت لینے کی تعلیم و تلقین : سو اس سے ہلاک شدہ قوموں کے کھنڈرات سے درس عبرت لینے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یہ ہیں ان کے ویران پڑے ہوئے گھر ان کے اپنے ظلم کی بناء پر "۔ جن کو تم لوگ اے عربو ! اپنے سفروں کے دوران دن رات دیکھتے ہو۔ اور مدائنِ صالح کے نام سے ان کے یہ کھنڈرات تب تک سامان عبرت بنے ہوئے تھے اور اب تک بنے ہوئے ہیں۔ لیکن غافل لوگ کل کی طرح آج بھی اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں اور وہ اس بارے میں نہ کوئی غور کرتے ہیں اور نہ توجہ دینے کی کوئی ضرورت سمجھتے ہیں کہ آخر یہ کون لوگ تھے ؟ جو اس ہولناک انجام کو پہنچے ؟ اور وہ کیا عوامل و اسباب تھے جن کی بنا پر ان بدبخت لوگوں کو اس ہولناک انجام اور ابدی ہلاکت و تباہی سے دو چار ہونا پڑا ؟ اور اس میں ہمارے لئے کیا درس عبرت اور سامان بصیرت ہے ؟ ۔ الا ما شاء اللہ ۔ سو ان بدبختوں کی یہ داستان کوئی دور کی داستان نہیں بلکہ ان کے کھنڈرات تمہاری راہ میں پڑے اور تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں اور اپنی زبان حال سے پکار پکار کر تمہیں دعوت غور و فکر دے رہے ہیں کہ ۔ دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو ۔ لیکن افسوس کہ دنیا والوں کی نگاہ عبرت ہی سب سے نادر و نایاب چیز ہے ۔ الا ما شاء اللہ جل وعلا - 57 علم والوں کے لیے بڑی بھاری نشانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بیشک اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کیلئے جو علم رکھتے ہیں "۔ یعنی اس قصے میں حق و باطل کے درمیان فرق وتمیز اور ان دونوں کے مآل و انجام سے متعلق اس میں نشانی تو بہت بڑی موجود ہے لیکن اس سے کام وہی لے سکتے ہیں اور فائدہ وہی اٹھا سکتے ہیں جو علم صحیح کی دولت رکھتے ہوں۔ سو اس سے نور علم و حکمت کی عظمت و اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ { یعلمون } کا ایک مطلب اور ایک احتمال ہے۔ یعنی اس سے مراد ہے کہ یہ نشانی ان لوگوں کیلئے ہے جو علم کی روشنی رکھتے ہیں۔ (المراغی وغیرہ) ۔ جبکہ دوسرا احتمال اس میں یہ بھی ہے کہ یہاں پر علم سے مراد ارادئہ علم ہو۔ فعل بول کر ارادئہ فعل مراد لینا بلاغت کا ایک معروف اسلوب ہے۔ سو اس صورت میں معنیٰ و مطلب یہ ہوگا کہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کیلئے جو جاننا چاہتے ہوں۔ اور ظاہر ہے کہ جو جاننا چاہتے ہی نہ ہوں ان کیلئے کسی نشانی کا کوئی فائدہ نہیں خواہ وہ کتنی ہی بڑی نشانی کیوں نہ ہو ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top