Ruh-ul-Quran - An-Naml : 52
فَتِلْكَ بُیُوْتُهُمْ خَاوِیَةًۢ بِمَا ظَلَمُوْا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
فَتِلْكَ : اب یہ بُيُوْتُهُمْ : ان کے گھر خَاوِيَةً : گرے پڑے بِمَا ظَلَمُوْا : ان کے ظلم کے سبب اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی لِّقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں
پس یہ ہیں ان کے گھر جو اجڑے پڑے ہیں بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے، بیشک اس کے اندر عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں
فَتِلْکَ بُیُوْتُھُمْ خَاوِیَۃً م بِمَا ظَلَمُوْا ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۔ وَاَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَـتَّـقُـوْنَ ۔ (النمل : 52، 53) (پس یہ ہیں ان کے گھر جو اجڑے پڑے ہیں بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے، بیشک اس کے اندر عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں۔ اور ہم نے بچا لیا ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور جو ڈرتے تھے۔ ) قریش کو تنبیہ یہ سرگزشتیں چونکہ قریش اور اہل مکہ کو سنائی جارہی ہیں تاکہ وہ ان سے سبق سیکھیں اور ہدایت قبول کرلیں۔ اس لیے انھیں سنا کر یہ فرمایا گیا ہے کہ قوم ثمود ان قوموں میں سے ہے جن کے کھنڈرات پر سے تمہارے تجارتی قافلے گزرتے ہیں اور جس کی تباہی کی داستان سے تم اچھی طرح واقف ہو۔ تم گزرتے ہوئے ان کے کھنڈرات پر نگاہ ڈالو، یہ وہ لوگ ہیں جو تم سے زیادہ پر عیش اور آسودہ زندگی گزارتے تھے اور ان کے گھروں میں ہن برستا تھا۔ آج ان کے گھر ویران اور اجڑے پڑے ہیں اور دور دور تک زندگی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ آنحضرت ﷺ جب تبوک جاتے ہوئے صحابہ کرام ( رض) کے ساتھ یہاں سے گزرے تو حضور ﷺ نے صحابہ کرام ( رض) سے فرمایا، اس عذاب شدہ قوم کے علاقہ میں داخل ہو، تو روتے ہوئے داخل ہو۔ کیونکہ ان کا ایک ایک کھنڈر ان کی تباہی کی داستان سنا رہا ہے۔ لیکن انسان کی غفلت کا کیا کہنا کہ ایسے مقامات جہاں سے عبرت حاصل ہونی چاہیے اور جہاں سے گزرتے ہوئے آنکھوں سے آنسو بہنے چاہئیں، انسان نے ان جگہوں کو بھی کلچر کی تلاش میں سیرگاہ بنا لیا ہے۔ اور اس کے ایک ایک پتھر سے بجائے عبرت حاصل کرنے کے کلچر تلاش کیا جارہا ہے۔ اور ان کی تباہی کے اسباب کو اللہ تعالیٰ کا عذاب سمجھنے کی بجائے طبعی اسباب قرار دیا جارہا ہے۔ شاعر نے بڑی کام کی بات کہی ہے : عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے اسی لیے آخر میں فرمایا کہ اس سرگزشت میں عبرت کی نشانیاں ہیں لیکن ان لوگوں کے لیے جو اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ کوئی اندھا بہرا خدا اس کائنات پر حکومت نہیں کر رہا ہے بلکہ ایک حکیم و دانا ہستی یہاں قسمتوں کے فیصلے کررہی ہے۔ اس کے فیصلے طبعی اسباب کے غلام نہیں ہیں بلکہ طبعی اسباب اس کے ارادے کے غلام ہیں۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ ہم نے ان لوگوں کو نجات دی اور وہ لوگ اس عذاب سے محفوظ رہے جو حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور ان کی دعوت کے نتیجے میں اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص سے اپنے عدل کے مطابق معاملہ کرتا ہے۔ اور جب سرکشی حد سے گزر جاتی ہے تو پھر وہ انتقام بھی لیتا ہے۔ چناچہ اسی خوف نے انھیں ہدایت کی طرف آنے پر مجبور کیا اور وہ ہدایت سے بہرہ ور ہو کر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہے۔
Top