Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 52
فَتِلْكَ بُیُوْتُهُمْ خَاوِیَةًۢ بِمَا ظَلَمُوْا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
فَتِلْكَ : اب یہ بُيُوْتُهُمْ : ان کے گھر خَاوِيَةً : گرے پڑے بِمَا ظَلَمُوْا : ان کے ظلم کے سبب اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی لِّقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں
وہ اُن کے گھر خالی پڑے ہیں اُس ظلم کی پاداش میں جو وہ کرتے تھے، اس میں ایک نشانِ عِبرت ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔66
سورة النمل 66 یعنی جاہلوں کا معاملہ تو دوسرا ہے، وہ تو کہیں گے کہ حضرت صالح اور ان کی اونٹنی کے معاملہ سے اس زلزلے کا کوئی تعلق نہیں ہے جو قوم ثمود پر آیا، یہ چیزیں تو اپنے طبیعی اسباب سے آیا کرتی ہیں، ان کے آنے یا نہ آنے میں اس چیز کا کوئی دخل نہیں ہوسکتا کہ کون اس علاقے میں نیکو کار تھا اور کون بد کار اور کس نے کس پر طلم کیا تھا اور کس نے رحم کھایا تھا، یہ محض واعظانہ ڈھکوسلے ہیں کہ فلاں شہر یا فلاں علاقہ فسق و فجور سے بھر گیا تھا اس لیے اس پر سیلاب آگیا یا زلزلے نے اس کی بستیاں الٹ دیں یا کسی اور بلائے ناگہانی نے اسے تل پٹ کر ڈالا۔ لیکن جو لوگ علم رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کوئی اندھا بہرا خدا اس کائنات پر حکومت نہیں کر رہا ہے بلکہ ایک حکیم و دانا ہستی یہاں قسمتوں کے فیصلے کر رہی ہے، اس کے فیصلے پر طبیعی اسباب کے غلام نہیں ہیں بلکہ طبیعی اسباب اس کے ارادے کے غلام ہیں، اس کے ہاں قوموں کو گرانے اور اٹھانے کے فیصلے اندھا دھند نہیں کیے جاتے بلکہ حکمت اور عدل کے ساتھ کیے جاتے ہیں اور ایک قانون مکافات بھی اس کی کتاب آئین میں شامل ہے جس کی رو سے اخلاقی بنیادوں پر اس دنیا میں بھی ظالم کیفر کردار کو پہنچائے جاتے ہیں، ان حقیقتوں سے جو لوگ باخبر ہیں وہ اس زلزلے کو اسباب طبیعی کا نتیجہ کہہ کر نہیں ٹال سکتے، وہ اسے اپنے حق میں تنبیہ کا کوڑا سمجھیں گے، وہ اس سے عبرت حاصل کریں گے، وہ ان اخلاقی اسباب کو سمجھنے کی وکشش کریں گے جن کی بنا پر خالق نے اپنی پیدا کی ہوئی ایک پھلتی پھولتی قوم کو غارت کرکے رکھ دیا۔ وہ اپنے رویے کو اس راہ سے ہٹائیں گے جو اس کا غضب لانے والی ہے اور اس راہ پر ڈالیں گے جو اس کی رحمت سے ہمکنار کرنے والی ہے۔
Top