Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 63
قَالَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَغْوَیْنَا١ۚ اَغْوَیْنٰهُمْ كَمَا غَوَیْنَا١ۚ تَبَرَّاْنَاۤ اِلَیْكَ١٘ مَا كَانُوْۤا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ
قَالَ : کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ جو حَقَّ : ثابت ہوگیا عَلَيْهِمُ : ان پر الْقَوْلُ : حکم (عذاب) رَبَّنَا : اے ہمارے رب هٰٓؤُلَآءِ : یہ ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اَغْوَيْنَا : ہم نے بہکایا اَغْوَيْنٰهُمْ : ہم نے بہکایا انہیں كَمَا : جیسے غَوَيْنَا : ہم بہکے تَبَرَّاْنَآ : ہم بیزاری کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف مَا كَانُوْٓا : وہ نہ تھے اِيَّانَا : صرف ہماری يَعْبُدُوْنَ : بندگی کرتے
یہ قول جن پر چسپاں ہوگا86 وہ کہیں گے”اے ہمارے ربّ ، بے شک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا۔ اِنہیں ہم نے اُسی طرح گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے۔ ہم آپ کے سامنےبراءت کا اظہار کرتے ہیں۔87 یہ ہماری تو بندگی نہیں کرتے تھے۔“88
سورة القصص 86 اس سے مراد وہ شیاطین جن و انس ہیں جن کو دنیا میں خدا کا شریک بنایا گیا تھا، جن کی بات کے مقابلے میں خدا اور اس کے رسولوں کی بات کو رد کیا تھا تھا، اور جن کے اعتماد پر صراط مستقیم کو چھوڑ کر زندگی کے غلط راستے اختیار کیے گئے تھے۔ ایسے لوگوں کو خواہ کسی نے الہ اور رب کہا ہو یا نہ کہا ہو، بہرحال جب ان کی اطاعت و پیروی اس طرح کی گئی جیسی خدا کی ہونی چاہیے تو لازما انہیں خدائی میں شریک کیا گیا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الکہف، حاشیہ 50) سورة القصص 87 یعنی ہم نے زبردستی ان کو گمراہ نہیں کیا تھا، ہم نے نہ ان سے بینائی اور سماعت سلب کی تھہ، نہ ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لی تھیں، اور نہ ایسی ہی کوئی صورت پیش آئی تھی کہ یہ تو راہ راست کی طرف جانا چاہتے ہوں مگر ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر جبرا انہیں غلط راستے پر کھینچ لے گئے ہوں۔ بلکہ جس طرح ہم خود اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے تھے اسی طرح ان کے سامنے بھی ہم نے گمراہی پیش کی اور انہوں نے اپنی مرض سے اس کو قبول کیا۔ لہذا ہم ان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے، ہم اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں اور یہ اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں۔ یہاں یہ لطیف نکتہ قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سوال تو کرے گا شریک ٹھہرانے والوں سے، مگر قبل اس کے کہ یہ کچھ بولیں، جواب دینے لگیں وہ جن کو شریک ٹھہرایا گیا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عام مشرکین سے یہ سوال کیا جائے گا تو ان کے لیڈر اور پیشوا محسوس کریں گے کہ اب آگئی ہماری شامت، یہ ہمارے سابق پیرو ضرور کہیں گے کہ یہ لوگ ہماری گمراہی کے اصل ذمہ دار ہیں۔ اس لیے پیرو وں کے بولنے سے پہلے وہ خود سبقت کر کے اپنی صفائی پیش کرنی شروع کردیں گے۔ سورة القصص 88 یعنی یہ ہمارے نہیں بلکہ اپنے ہی نفس کے بندے بنے ہوئے تھے۔
Top