Tafseer-e-Madani - Faatir : 5
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا١ٙ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اِنَّ : بیشک وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ : پس ہرگز تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۪ : دنیا کی زندگی وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ : اور تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے بِاللّٰهِ : اللہ سے الْغَرُوْرُ : دھوکہ باز
اے لوگوں بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس تم کو دھوکے میں نہ ڈالنے پائے دنیاوی زندگی (اور اس کی چمک دمک) اور تم کو دھوکے میں نہ ڈالنے پائے اللہ کے بارے میں وہ بڑا دھوکے باز2
13 سب سے بڑے فتنے سے تحذیر و تنبیہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور سب لوگوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ " اے لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ پس تم کو دھوکے میں نہ ڈالنے پائے یہ دنیاوی زندگی "۔ کہ کہیں تم اسی دنیا کو آخری منزل اور اسی کی تکلیف و راحت کو منتہائے مقصود سمجھنے لگو اور اپنی آخرت کی حقیقی اور ابدی منزل کو بھول جاؤ ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو پیغمبر کو تسلی دینے کے بعد اس ارشاد میں مخالفین و منکرین کو خطاب کرکے تنبیہہ فرمائی جارہی ہے کہ جس ہولناک انجام سے تم لوگوں کو خبردار کیا جارہا ہے اس کو یونہی خالی خولی دھمکی اور کوئی ہوائی بات نہ سمجھو۔ بلکہ یہ ایک شدنی بات اور قطعی حقیقت ہے۔ اور آج دنیا میں جو تمہیں رفاہیت اور عیش و عشرت کا سامان حاصل ہے اس کو اپنے رویے کی صحت کی دلیل نہ سمجھو۔ یہ سب کچھ بہرحال عارضی، فانی اور مٹ کر رہنے والا ہے۔ سو اس خطاب و ارشاد سے سب سے بڑے فتنے اور خطرے سے خبردار فرمایا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لوگ دنیا کی چمک دمک میں کھو کر اسی کے ہو کر رہ جاؤ اور آخرت کی اپنی اصل اور حقیقی و ابدی زندگی کو بھول جاؤ اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر تم لوگ ہمیشہ کے ہولناک خسارے میں مبتلا ہوجاؤ ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 14 سب سے بڑے دھوکے باز سے تحذیر و تنبیہ : سو ارشاد فرمایا گیا " اور تم کو دھوکے میں نہ ڈالنے پائے وہ بڑا دھوکے باز "۔ یعنی ابلیس لعین جو کہ طرح طرح سے دھوکہ دیتا ہے۔ کبھی اس طرح کہ وہ لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق و مدبر ہے ہی نہیں بلکہ یہ یونہی بن گئی اور یونہی الل ٹپ چل رہی ہے۔ جیسا کہ دھریہ کہتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور کبھی یوں کہ اللہ پاک نے اس اتھاہ کائنات کو پیدا کرنے کے بعد اسے اندھی بہری فطرت -Nature ۔ کے حوالے کردیا ہے اور اب وہی اندھی بہری نیچر۔ طبیعت ۔ اس کو چلا رہی ہے۔ جیسا کہ نیچری کہتے ہیں۔ اور کبھی وہ یوں کہتا ہے کہ حضرت خالق نے اس کائنات کو پیدا فرمانے کے بعد اسے فلاں فلاں ہستیوں کے سپرد کردیا ہے۔ اب وہی ہستیاں سب کچھ کرتی ہیں۔ جیسا کہ مشرک لوگوں کا کہنا ماننا ہے۔ اور کبھی یوں کہ قیامت اگر ہوئی بھی تو ہمیں فلاں فلاں ہستیاں چھڑا اور بچا لیں گی۔ پس ہمیں انہی کا دامن گرفتہ ہوجانا اور انہی کا لڑ پکڑ لینا کافی ہے۔ آخر جہاں سے اونٹ گزرتا ہے وہاں سے اس کی دم بھی گزر جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ اہل بدعت وغیرہ کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سو یہ قسما قسم اور طرح طرح کے دھوکے ہیں جو وہ عَدُوِّ مُبِیْن انسان کو دیتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اس لئے اللہ پاک اپنے کلام حکیم میں تنبیہ فرماتا ہے کہ اس بڑے دھوکہ باز سے بچنا اور اس کے دھوکوں سے ہوشیار رہنا اور اس ملعون کے ایسے کسی دھوکے میں نہ آجانا کہ اس طرح کے کسی مفروضے پر اگر سرمایہ حیات کو ضائع کردیا تو یہ ایسا ہولناک خسارہ ہوگا کہ پھر اس کی تلافی ممکن نہ ہوگی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو حق اور حقیقت یہ ہے کہ اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور اس میں حاکم و مدبر اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے اور انسان کو اس دنیا میں ابتلاء و آزمائش کیلئے فرصت حیات کی مہلت دی گئی ہے۔ اور اس نے بہرحال اس کے حضور حاضر ہو کر اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ اور اس پر انسان کی ابدی زندگی کا مدارو انحصار ہوگا ۔ وباللہ التوفیق -
Top