Tafseer-e-Madani - Ar-Rahmaan : 4
عَلَّمَهُ الْبَیَانَ
عَلَّمَهُ : سکھایا اس کو الْبَيَانَ : بولنا
اسے بات کرنا سکھایا
[ 3] نعمت نطق و گویائی کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اسی نے اس کو بات کرنا سکھایا۔ تاکہ اس طرح وہ اظہار مافی الضمیر کرسکے اور افادہ و استفادہ کے قابل ہوسکے، یہاں پر انسان خلقت کے بعد سب سے پہلے تعلیم بیان کی نعمت کو ذکر فرمایا گیا، اور اس سے بھی پہلے تعلیم قرآن کی نعمت کو، جس سے معلوم ہوا کہ سب سے بڑی اور سب سے اہم نعمت علم کی نعمت ہے، اور علوم میں سے بھی علم قرآن کی نعمت، سب سے بڑی، اور سب سے اہم نعمت ہے، بہرکیف اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا، اور اس کو نطق و گویائی کی قوت سے نوازا، اور اس کو سننے سمجھنے کی صلاحیت بخشی، جس سے وہ خیر اور شر کے درمیان فرق وتمیز کرسکتا ہے، اور اس کو آگے پہنچا سکتا ہے، یہاں پر یہ امر بھی واضح رہنا چاہئے کہ انسان کے اندر نطق کی صلاحیت اس کے اندر دوسری گوناگوں اور عظیم الشان صلاحیتوں کی شاہد اور ان کی آئینہ دار ہے۔ کیونکہ یہ نطق مستلزم ہے اس بات کو کہ انسان عاقل اور مدرک ہے، اور یہ استنباط اور اجتہاد و استخراج کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور یہی چیز اس کو دوسرے تمام حیوانات سے ممتاز کرتے ہے۔ اسی لیے اس کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے ورنہ اس انسان اور حیوان کے اندر کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ سو نعمت نطق ایک عظیم الشان جامع اور بےمثل نعمت ہے۔ اسی لیے یہاں پر اس کا بطور خاص ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ یہ اسی وحدہٗ لاشریک کی عطاء و بخشش کا نتیجہ ہے، فلہ الحمد ولہ الشکر، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب، ملہم الصدق والصواب، والھادی الی الحق والرشاد، جل جلالہٗ ۔
Top