Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 4
عَلَّمَهُ الْبَیَانَ
عَلَّمَهُ : سکھایا اس کو الْبَيَانَ : بولنا
اسی نے اس کو بولنا سکھایا
(55:4) علمہ۔ میں ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع الانسان ہے۔ البیان مفعول ثانی علم فعل کا بولنا۔ مصدر ہے ۔ کسی چیز کے متعلق کھولنے اور واضح کرنے کا نام ” بیان “ ہے۔ بیان ۔ نطق سے عام ہے اور نطق خاص ہے۔ اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے چناچہ کلام اول معنی ہی کے اعتبار سے بیان کہلاتا ہے ۔ چناچہ کلام اول معنی کے اعتبار سے ہی بیان کہلاتا ہے کیونکہ وہ معنی مقصود کو کھولتا اور ظاہر کردیتا ہے۔ اور مجمل و مبہم کلام کی شرح کو دوسرے معنوں کے اعتبار سے بیان کہتے ہیں ۔ ھذا بیان للناس (3:138) یہ لوگوں کے لئے بیان ہے۔ اول معنی کی مثال ہے اور ثم ان علینا بیانہ (75:19) ہمارے ذمہ اس کا بیان کرنا ہے۔ دوسرے معنی کی مثال ہے اور علمہ البیان (اس کو بیان سکھایا) دونوں معنی کی مثال بن سکتا ہے۔ (لغات القرآن)
Top