Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 4
عَلَّمَهُ الْبَیَانَ
عَلَّمَهُ : سکھایا اس کو الْبَيَانَ : بولنا
اس (اللہ) نے اس (انسان) کو بولنا سکھایا
اللہ تعالیٰ ہی نے انسان کو بولنا اور بیان کرنا سکھایا ہے 4۔ انسان کے جسم کے اندر جو قویٰ اللہ تعالیٰ نے دریعت کیے ہیں ان ہی قویٰ میں سے ایک قوت گویائی بھی ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنا مافی الضمیر بیان کرتا ہے ، خیروشر ، بھلائی اور برائی کو سمجھتا اور سمجھاتا ہے۔ ایک تو اس کی مادری زبان کہلاتی ہے جو ماں باپ اور ماحول سے وہ خود بخود ہی سیکھ لیتا ہے اور دوسری زبانیں بھی جتنی اس دنیا کے اندر بولی جاتی ہیں اگر وہ ذرا اس معاملہ میں محنت کرے تو ان کو سیکھ لیتا ہے جتنے علوم اس دنیا میں ایجاد ہوئے ہیں یہ سب کے سب اسی قوت بیانہ ہی کی کرشمہ سازی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان کے اندر دوسری صلاحیتیوں کی طرح کم وبیش ودیعت کی ہے اور اس قوت گویائی کی ممدو معاون جو قوتیں ہیں اگر ان کو شمار کرنا شروع کردیں تو ان کا شمار کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہے مثلاً عقل و شعور ، فہم وادراک ، تمیزوارادہ ، شعورولاشعور کی بےپناہ صلاحیتیں اس کی معاون پیدا کی گئی ہیں اور ان سب سے کام لے کر انسان کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے اور ابھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچے گا لیکن اس کے اندر جو ہاتھ کام کر رہا ہے وہ ہاتھ قدرت الٰہی ہی کا ہاتھ ہے کہ وہ سارے انسانوں کا خود خالق ہے اور اس نے اس کے اندریہ صلاحیتیں ودیعت کی ہیں اور ان صلاحیتیوں ہی کے لیے وہ اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کے سیکھنے اور سکھانے کا طریقہ بھی دوسرے جانداروں سے بالکل الگ تھلگت ہے۔ فطری تعلیم تو سارے حیوانات میں اگرچہ وہ الگ الگ نوعیت کی ہو بہرحال موجود ہے لیکن قوت گویائی کسی دوسرے حیوان کو اتنی وافرمقدار میں نہیں عطا کی گئی جتنی انسان کو عطا کی گئی ہے اور اشیاء کی جو کہنہ وہ بیان کرتا یا کرسکتا ہے۔ کوئی دوسرا حیوان نہیں کرسکتا اور جو شخص جتنا زیادہ سے زیادہ اس میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کریگا اتنا زیادہ سے زیادہ اس میں ترقی کرتا جائے گا اور اس سلسلہ میں جتنی اس کو آہ اور واہ واہ کی داد دی جائیگی اتنی اس کی صلاحیتیں بڑھتی چلی جائیں گی اور اس سے وہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوار سکتا ہے اگر وہ سنوارنے کی کوشش کرے۔ اس وقت تک دنیا میں ان گنت ایجادات (lnventions) ہوچکی ہیں اور ابھی مزید ہوتی چلی جارہی ہیں ان ایجادات کے نام کس نے رکھے ہیں ؟ اس فطرت انسان ہی نے رکھے ہیں اور انہی کے ذریعہ سے وہ مزید قدم قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ اور اسی شعبہ کے باعث وہ استاد ، کتاب ‘ مدرسہ ، تبلیغ وتلقین ، تحریروتقریر اور بحث و استدلال اور وعظ ومناظرہ میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتا رہتا ہے اور یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہے ؟ یہ سب کچھ اس وقت گویائی کی نعمت ہے جس نے انسان کو مالا مال کردیا ہے ، پھر بیان کے یہ اختراعی طریقے اپنی جگہ پر اور قرآن کریم کا بیان جو ایک فطری طریقہ بیان ہے اس کا مقام اپنا ہے بشرطیکہ وہ تاویل سے پاک ہو اور عین بیان کرنے والے کے بیان کے مطابق اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اس کے محاورات ، اشارات ، استعارات اور ضرب الامثال اور دوسرے سارے آداب بیان کو محلوظ خاطر رکھا جائے نہ یہ کہ ان کے لفظی معنی کی مدد سے اس کے مفہوم کو کچھ سے کچھ بنا کر رکھ دیا جائے جیسا کہ عام طور پر قرآن کریم کے ساتھ کیا گیا ہے۔ (علمہُ ) میں ، ضمیر کا مرجع الانسان ہے اور الانسان میں الف لام جنس کا ہے نہ کہ معرفہ ہے جیسا کہ عام طور پر مفسرین نے سمجھا ہے اور اس سے مراد آدم (علیہ السلام) کی ذات اقدس کو وہ لیتے ہیں اور بعض مفسرین نے نبی اعظم و آخر ﷺ بھی اس سے مراد لیے ہیں لیکن ہمارے نزدیک صحیح مفہوم یہی ہے کہ الانسان سے مراد ساری دنیا کے انسان ہیں ، ساری دنیا کے علوم اور ہر قسم کے علوم مراد ہیں جو انسان کے لیے دین دنیا میں نافع ہیں اگرچہ کلام اللہ کا اطلاق قرآن کریم ہی کے لیے خاص ہے اور قرآن کریم ہی اللہ کا کلام ہے اور یہی کلام اس کا مستحق ہے کہ اس کو اللہ کا کلام کہا جائے۔
Top