Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 27
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ١۪ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
الَّذِیْنَ : جو لوگ يَنْقُضُوْنَ : توڑتے ہیں عَهْدَ اللہِ : اللہ کا وعدہ مِنْ بَعْدِ : سے۔ بعد مِیْثَاقِهِ : پختہ اقرار وَيَقْطَعُوْنَ : اور کاٹتے ہیں مَا۔ اَمَرَ : جس۔ حکم دیا اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے اَنْ يُوْصَلَ : کہ وہ جوڑے رکھیں وَيُفْسِدُوْنَ : اور وہ فساد کرتے ہیں فِي : میں الْاَرْضِ : زمین أُوْلَٰئِکَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخَاسِرُوْنَ : نقصان اٹھانے والے ہیں
جو خدا کے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز (یعنی رشتہ قرابت) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اس کو قطع کئے ڈالتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں
نحو : ماذا اس کی دو صورتیں ہیں۔ نمبر 1 : ذا اسم موصول ہو اور الذی کے معنی میں ہو نمبر 2: ما استفہامیہ ہو۔ پس دونوں کلمے مل کر اسم استفہام بن گئے اور ایک کلمہ ہوئے۔ پہلی صورت میں ماؔ مبتدا اور ذا اس کی خبر ہے۔ اپنے جملہ صلہ یعنی اراد کے ساتھ مل کر اور ضمیر محذوف ہے۔ جب اسم استفہام مان لیں تو اراد کی وجہ سے محلًا منصوب ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے ایّ شیء اراداللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ نے کس چیز کا ارادہ کیا۔ الارادۃ۔ یہ مصدر ہے اَرَدت الشیٔ کہتے ہیں جب تیرا نفس اس کو طلب کرے اور اس کی طرف مائل ہو۔ متکلمین کے نزدیک ایک وجہ سے خاص کرتا ہے دوسری کی بجائے۔ معتزلہ کا عقیدہ : البتہ معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ارادہ کے ساتھ حقیقۃً نہیں کی جاسکتی جب اراداللّٰہ کذا کہیں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فعل ہے تو ارادہ بمعنی فعل ہوگا کیونکہ وہ نہ بھولنے والا اور نہ مجبور ہے اور اگر غیر کا فعل ہے تو اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا۔ کثرت کا معنی : یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا : (وہ گمراہ کرتا ہے اس مثال سے بہت سوں کو اور ہدایت دیتا ہے بہت کو) امّا سے شروع ہونے والے دونوں جملوں کی تفسیر اور بیان کے قائم مقام ہے کہ جاننے والا فریق تو اس کو برحق کہتا ہے اور جہلاء استہزاء کرنے والے ہیں۔ اور یہ دونوں کثرت سے موصوف ہیں۔ اور اس کے حق ہونے کا علم باب ہدایت سے ہے اور اسکے اچھے مورد سے ناواقفیت باب گمراہی سے ہے اور اہل ہدایت خواہ بذات خود کہتے ہوں مگر ان کو اہل ضلال کے بالمقابل بظاہراً قلت سے تعبیر کیا جاتا ہے اس لیے بھی کہ تھوڑے سے ہدایت والے بھی حقیقت میں کثیر ہیں اگرچہ صورۃً وہ قلیل ہوں۔ جیسا کہ شاعر کے قول میں۔ ؎ ان الکرام کثیر فی البلاد وان ٭ قلواکما غیر ھم قل وان کثروا شرفاء شہروں میں بہت ہیں۔ اگرچہ صورۃً وہ قلیل ہوں۔ جیسا کہ ان کے علاوہ قلیل ہیں۔ حقیقت میں اگرچہ صورۃً گنتی میں کثیر ہیں۔ والاضلال : بندے میں ضلال کے فعل کا پیدا کرنا۔ الھدایہ : ہدایت پانے کے فعل کو بندے میں پیدا کرنا۔ مقصد تمثیل : اہلسنّت کے نزدیک یہ حقیقت ہے۔ آیت کا سیاق اس بات کی وضاحت کررہا ہے کہ جس چیز کو جاہل کفار انوکھا اور عجیب خیال کرتے ہیں۔ کہ حقیر چیزوں کیساتھ مثال بیان کرنا اچھنبے کی بات ہے۔ حالانکہ یہ تو تعجب کی بات نہیں کیونکہ تمثیل کا مقصد معنی کو واضح کرنا اور وہم والے کو مشاہدے کے قریب کرنا ہوتا ہے۔ پس اگر متمثل لہ عظیم ہو تو متمثل بہٖ بھی عظیم اور اگر وہ حقیر ہو تو متمثل بہٖ بھی حقیر ہوگا۔ ذرا غور تو کرو۔ جبکہ حق واضح اور جلی ہے تو اس کی مثال ضیاء اور نور سے دی۔ اور باطل غیر واضح ہے تو اس کو ظلمت اور اندھیرے سے تشبیہ دی۔ بس اسی طرح اس آیت میں وہ آلہہ جن کو کفار نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے۔ وہ سب سے زیادہ ذلیل ترین اور حقیر ترین ہیں۔ اسی لیے مکڑی کے جالے کو ان کی کمزوری اور بودے پن کے لیے بطور تمثیل لائے۔ اور ان کو مکھی سے کم درجہ قرار دیا۔ اور مچھر کی مثال ان کے لیے بیان کی جو مثال میں مکھی سے بھی کم تر ہے یہ تو کوئی اوپری اور نوایجاد بات نہیں۔ اس تمثیل بیان کرنے والے کو نہ کہا جائے گا۔ کہ مچھر کے ساتھ ان کی تمثیل بیان کرنے سے باز رہو۔ اس لیے کہ وہ اپنی تمثیل میں سچا ہے اور بات میں حقیقت پر چلنے والا ہے اور تمثیل کو اس کے مقام پر فٹ کر رکھا ہے۔ مومن و کافر کے مزاج میں فرق : سیاق اور آیت میں یہ بات بھی بیان کردی۔ کہ وہ مومن جن کی عادت انصاف اور امور میں صحیح عقل سے غور فکر کرنا ہے وہ جب اس تمثیل کو سنیں گے تو جان لیں گے۔ کہ یہ برحق ہے۔ کافر لوگ جن کی عقلوں پر جہل غالب ہے وہ سن کر بڑے بنیں گے۔ اور عنادو ضد پر اتر آئیں گے۔ اور اس کے باطل قرار دینے کی سوچیں گے اور انکار کر کے مقابلہ کریں گے اور یہ چیز مؤمنوں کی ہدایت کا سبب بن جائے گی۔ اور فاسقوں کی گمراہی کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ ان کفار (مکہ) پر تعجب ہے کہ انہوں نے کس طرح انکار کردیا حالانکہ لوگ مکھی، پرندوں اور حشرات الارض کی مثالیں بیان کرتے چلے آرہے ہیں چناچہ کہتے ہیں۔ اجمع من ذرّۃ (چیونٹیوں سے زیادہ اکھٹے) اجر أمن الذباب ( مکھی سے زیادہ جرأت مند) اسمع من قراد (چچڑی سے زیادہ کانوں والا) اضعف من فراشۃ (پروانے سے زیادہ کمزور) أکل من السوس (دیمک سے زیادہ کھانے والا) اضعف من البعوضہ (مچھر سے زیادہ کمزور) اعزّمن مخ البعوض۔ (مچھر کے مغز سے زیادہ عزت والا) لیکن حجت باز اور مبہوت کے مزاج کا تقاضا ہے کہ زیادہ حسرت کی وجہ سے واضح کو مسترد کرے اور چمکتے ہوئے روشن حق کا انکار کر دے۔ وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّاالْفَاسِقِیْنَ : (اور وہ ہرگز گمراہ نہیں کرتا اس سے مگر فاسقوں کو) نحوی تحقیق : نحو : الفاسقین، ما یضل کا مفعول ہے استثناء کی وجہ سے منصوب نہیں کیونکہ یضل کا مفعول پورا نہیں ہوا۔ مفہوم فسق : الفسق : میانہ روی سے نکلنا۔ شرع میں کبیرہ کا ارتکاب کر کے حکم شرع سے نکلنا یہ دو مرتبوں کے درمیان ہے یعنی مومن و کافر کے درمیان (نہ وہ مومن رہتا ہے اور نہ وہ کافر ہوتا ہے) یہ معتزلہ کے نزدیک ہے۔ عنقریب ہم اس کی تردید کریں گے۔ انشاء اللہ اَلَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ ۔ : (وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑتے ہیں) النقضؔ : ترکیب کھولنا اور فسخ کرنا العھد۔ پکا وعدہ۔ ان ناقضین سے ضدی قسم کے احبار یہود یا ان میں سے جو منافقین یا تمام کفار مراد ہیں۔ عہد اللّٰہ : عہد سے مراد۔ نمبر 1: توحید کے دلائل جو ان کی عقلوں میں موجود تھے۔ گویا وہ وصیت شدہ بات تھی۔ اور وثیقہ تھا۔ جو ان سے لیا گیا تھا۔ نمبر 2: ان سے پختہ عہد لیا گیا۔ کہ جب رسول ان کی طرف بھیجا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ معجزات سے اس کی تصدیق فرما دیں گے۔ تو وہ اس کی تصدیق کریں گے۔ اور اس کی اتباع کریں گے۔ اور اس کا تذکرہ نہ چھپائیں گے۔ نمبر 3: اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ خون نہ بہائیں گے۔ اور ایک دوسرے پر سرکشی نہ کریں گے۔ اور قطع رحمی نہ کریں گے۔ نمبر 4: (تین عہد) یہ بھی کہا گیا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے تین وعدے لئے۔ عہد اول جو تمام ذریت آدم سے اقرار ربوبیت کا لیا گیا۔ جو سورة الاعراف آیت نمبر 172۔ وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ 0 بَنِیْ ٰادَمَ میں مذکور ہے دوسرا عہد جو خاص انبیاء ( علیہ السلام) سے لیا گیا۔ کہ وہ رسالت کو پہنچائیں گے اور دین کو قائم کریں گے وہ سورة الاحزاب آیت نمبر 7 وَاِذَ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَھُمْ میں ذکر فرمایا ہے۔ اور تیسرا عہد جو علماء سے لیا گیا۔ جس کو سورة آل عمران آیت نمبر 187 وَاِذْاَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ میں ذکر کیا گیا گویا یہ تینوں مراد ہیں۔ مِنْ 0 بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ : (اس کو پختہ کردینے کے بعد) میثاق، الوثاقہ سے لیا گیا۔ یہ کسی چیز کو مضبوط کرنے کو کہا جاتا ہے۔ ہٖ کی ضمیرعہد کی طرف ہے وہ جس کو قبول کرنے کے لیے انہوں نے مضبوط باندھا۔ اور اپنے نفسوں پر لازم کیا نمبر 1: جائز ہے کہ میثاق تو ثقۃ (وعدے کی توثیق کرنے کے بعد) کے معنی میں ہو جیسا میعاد بمعنیٰ الوعد آتا ہے ہٖ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹے تو معنی یہ بنے گا کہ اللہ تعالیٰ کے ان پر پختہ کردینے کے بعد مِنْ یہ ابتداء غایت کے لیے ہے وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَاللّٰہُ بِہٖٓ اَنْْ یُّوْصَلَ : (اور وہ قطع کرتے ہیں اس کو جن کا اللہ تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم دیا)
Top