Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 28
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ١ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
کَيْفَ : کس طرح تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو بِاللہِ : اللہ کا وَكُنْتُمْ : اور تم تھے اَمْوَاتًا : بےجان فَاَحْيَاكُمْ : سو اس نے تمہیں زندگی بخشی ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ : پھر وہ تمہیں مارے گا ثُمَّ : پھر يُحْيِیْكُمْ : تمہیں جلائے گا ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : لوٹائے جاؤگے
(کافرو ! ) تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے
قطع کی حقیقت : نمبر 1: قطع رحمی کرنا اور مسلمانوں سے دوستی منقطع کرنا۔ نمبر 2: انبیاء ( علیہ السلام) میں سے بعض پر ایمان اور بعض کا انکار کر کے ان کی اجتماعیت علی الحق کو ختم کیا۔ گویا ان یوصل سے مراد اجتماعیت علی الحق اور قطع سے مراد بعض کی تصدیق اور بعض کی تکذیب ہے۔ تعریف امر : الامرؔ۔ کسی چیز پر استعلاء کے طور پر مخصوص قول سے فعل کا مطالبہ کرنا۔ نحو : مَانکرہ موصوفہ ہے یا الذی کے معنی میں ہے ان یوصل نمبر 1: موضع جر میں ہے ھا سے بدل ہے یعنی بوصلہ نمبر 2: موضع رفع میں ہے ای ھوان یوصل وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ : (وہ زمین میں فساد کرتے ہیں) ڈاکہ ڈال کر اُولٰٓپکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ : (اور وہی نقصان اٹھانے والے ہیں) ایمان لانے پر تنگ کر کے۔ نحو : اولٰٓپک مبتدا ھم ضمیر فصل اور الخاسرون خبر ہے یعنی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ نوعیت نقصان : اس طرح کہ انہوں نے وفا کے بدلہ میں وعدہ توڑا اور وصل کو قطع سے اور اصلاح کو فساد سے ثواب کو عقاب سے بدل ڈالا۔ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ : (تم کیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے ہو) ہمزہ کا وہ معنی جو کیف میں ہے اس کی مثال یہ قول ہے اتکفرون باللّٰہ ومعکم ما یصرف عن الکفروید عوا الی الایمان۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ حالانکہ تمہارے پاس وہ چیز ہے جو کفر سے پھیرنے اور ایمان کی طرف راغب کرنے والی ہے۔ مقصد استفہام : یہ استفہام انکار وتعجب کے لیے ہے۔ اس کی مثال اس قول میں ہے أتطیر بغیر جناحٍ وکیف تطیر بغیر جناحٍ ؟ کیا تو بغیر پروں کے اڑتا ہے اور تو بغیر پروں کے کیسے اڑے گا۔ یعنی تو بغیر پروں کے ہے اس لیے تو اڑا نہیں سکتا۔ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا : (حالانکہ تم مردہ تھے) وائو حالیہ ہے یعنی تم اپنے باپوں کی اصلاب میں نطفہ کی صورت میں تھے اور قد مضمر ہے الاموات جمع میت ہے جیسے اقوال جمع قیل۔ اسی لیے جسمیں زندگی نہ ہو اس کو بھی میت کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورة الفرقان آیت نمبر 49 میں ہے بَلْدَۃً مَّیْتًا۔ فَاَحْیَاکُمْ : (پس اس نے تمہیں زندہ کیا) پس اس نے ماں کے رحموں میں زندہ کردیا۔ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ : (پھر وہ تمہیں موت دیں گے) وہ تمہیں موت دیں گے جب تمہاری مدت زندگی پوری ہوجائے گی۔ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ : (پھر وہ تمہیں زندہ کریں گے) پھر وہ بعث کے لیے زندہ کریں گے۔ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ : (پھر اسی کی طرف لوٹائے جائو گے) پھر تم جزا کی طرف لوٹو گے۔ یا پھر وہ قبور میں تمہیں زندہ کریں گے۔ پھر اس کی طرف نشور کے لیے لوٹائے جائو گے۔ فاء اور ثم کا فرق : یہاں پہلا عطف فاء کے ساتھ ہے اور باقی ثم کے ساتھ ہے کیونکہ احیاء اول بلاتا خیر موت اول کے بعد ہوا۔ باقی موت وہ تو زندگی سے مؤخر ہے اور حیات ثانیہ بھی اسی طرح موت سے متاخر ہے اگر نشور مراد ہو اور اگر قبر کی زندگی مراد ہو تو اس کی تاخیر کا بھی اسی سے علم ہوتا ہے اور جزاء کی طرف لوٹناوہ نشور سے متاخر ہے۔ کفر انوکھا ہے : اس موت وحیات کے واقعہ کے ساتھ ساتھ ان کا کفر انوکھی چیز ہے کیونکہ اس واقعہ میں واضح دلائل ہیں جو کفر سے ان کو پھیر سکتے ہیں۔ اور اس لیے بھی ان کا انکار عجیب ہے کہ یہ واقعہ بڑی بڑی نعمتوں پر مشتمل ہے جن کا حق شکریہ ہے نہ کہ نا شکری کرنا۔
Top