Mufradat-ul-Quran - An-Najm : 48
وَ اَنَّهٗ هُوَ اَغْنٰى وَ اَقْنٰىۙ
وَاَنَّهٗ : اور بیشک وہ هُوَ اَغْنٰى : وہی ہے جس نے غنی کیا وَاَقْنٰى : اور جائیداد بخشی۔ دولت مند کیا
اور یہ کہ وہی دولت مند بناتا اور مفلس کرتا ہے
وَاَنَّہٗ ہُوَاَغْنٰى وَاَقْنٰى۝ 48 ۙ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ قنی قوله تعالی: أَغْنى وَأَقْنى[ النجم/ 48] أي : أعطی ما فيه الغنی وما فيه الْقِنْيَةُ ، أي : المال المدّخر، وقیل : «أَقْنَى» : أرضی. وتحقیق ذلک أنه جعل له قِنْيَةً من الرّضا والطّاعة، وذلک أعظم الغناء ین، وجمع القِنْيَةِ : قِنْيَاتٌ ، وقَنَيْتُ كذا واقْتَنَيْتُهُ ومنه : قَنِيتُ حيائي عفّة وتكرّما ( ق ن ی ) الاقناء ( افعال ) کے معنی غنی کردینے کے ہیں قرآن پاک میں ہے ۔ أَغْنى وَأَقْنى[ النجم/ 48] اور یہ کہ دہی دولت مند بناتا اور مفلس کرتا ہے ۔ یہ قناء ( افعال ) سے ہے جس کے معنی اتنا مال دینے کے ہیں کہ احتیاج باقی نہ رہے یا یہ قنیتہ سے ہے اور اس کے معنی ذخیرہ کیا ہوا مال بخشنے کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اقنی کے معنی ارضی یعنی راضی کرنا کے ہیں ۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی رجا و اطاعت کا خزانہ بخش دیا اور غنامادی ( مالداری ) سے بڑھ کر ہے ۔ اور قنیتہ کی جمع قنیات آتی ہے اور قنبت خدا واقتنیتہ کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے کے ہیں اسی سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 3 26 ) قنیت حیانی عفتہ وتکرما تو میں بوجہ عفت وکرم کی وجہ سے حیا کی چادر اوڑھ لیتا ہوں ۔
Top