Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 48
وَ اَنَّهٗ هُوَ اَغْنٰى وَ اَقْنٰىۙ
وَاَنَّهٗ : اور بیشک وہ هُوَ اَغْنٰى : وہی ہے جس نے غنی کیا وَاَقْنٰى : اور جائیداد بخشی۔ دولت مند کیا
اور اسی نے غنی اور سرمایہ دار کیا
(وانہ ھو اغنی واتنی وانہ ھو رب الشعری) (48، 49) (بخیل مالداروں کو تنبیہ)۔ یعنی وہی ہے جو آدمی کے فقر کو غنا سے بدل دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کی ضرورت سے اتنا زیادہ دے دیتا ہے کہ وہ اس کو جمع کر کے مال دار آدمی بن جاتا ہے۔ اتنی، تنیۃ سے ہے جو جمع کیے ہوئے مال کے لیے آتا ہے۔ گویا اغنی بہا ان لوگوں کے لیے استعمالہوا جو فقر کے دائرہ سے نکل چکے ہیں اور اقنی ان کے لیے استعمال ہوا ہے جو صرف فقر کے دائرہ سے نکل ہی نہیں چکے ہیں بلکہ مالداروں کے زمرے میں ہیں۔ اوپر آیات 33، 34 میں ان مالداروں کا کردار بیان ہوچکا ہے جو خدا کی راہ میں دیتے دلاتے تو کچھ بھی نہیں لیکن جنت کے مراتب عالیہ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ انہی کو تنبیہ ہے کہ جو مال و ثروت ان کو حاصل ہے یہ خدا کی دین ہے۔ اس میں شعری کو کوئی دخل نہیں ہے، جیسا کہ انہوں نے گمان کر رکھا ہے شعری کا رب بھی اللہ تعالیٰ سے ہے۔ (شعری)۔ شعری ایک ستارے کا نام ہے جو موسم بہار میں طلوع ہوتا ہے، مشرکین عرب اس کو بہت مبارک سمجھتے تھے اور بہار کی تمام شادابیاں اور تمام تجارتی سرگرمیاں اسی سے منسوب کرتے تھے۔ ایک جاہلی شاعر اپنے ممدوح کی تعریف میں کہتا ہے : (شامس فی القرحتی ادا ما۔۔ ذکت الشعری فبر دو ظل)۔۔۔ (وہ سردیوں کی ٹھنڈ میں لوگوں کو گرمی پہنچانے والا ہے اور جب شعریٰ طلوع ہوتا ہے (یعنی موسم بہار میں) تو وہ لوگوں کے لیے ٹھنڈک اور سایہ بن جاتا ہے) یہاں اس بحث پر نظر رہے جو ابتدائے سورة میں والنجم اذا ھری کے تحت گزر چکی ہے کہ یہ ستارے جن کو نادانوں نے اپنی قسمتوں کا مالک سمجھ رکھا ہے، اپنے سجود و ہبود سے خود شہات دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا رب ہے۔ یہ امر ضروری نہیں ہے کہ یہ ساری باتیں بعینہٖ موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ کے صحیفوں کے حوالوں ہی پر مبنی ہوں بلکہ ان کی نوعیت توسیع کلام ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایک قول کا حوالہ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ایسے اضافے بھی کردیئے جاتے ہیں جو اگرچہ نفطاً تو اس قول کا جزو نہیں ہوتے لیکن معناً اسی پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس سے بات کی پوری وضاحت بھی ہوجاتی ہے اور کلام مطابق حال بھی ہوجاتا ہے۔ میرے نزدیک یہی صورت یہاں بھی ہے۔ آیت 42 سے آگے کی آیات توسیع کلام کی حیثیت رکھتی ہیں جس سے کلام قریش کے لیے گویا خود ان کی حکایت بن گیا ہے۔
Top