Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 48
وَ اَنَّهٗ هُوَ اَغْنٰى وَ اَقْنٰىۙ
وَاَنَّهٗ : اور بیشک وہ هُوَ اَغْنٰى : وہی ہے جس نے غنی کیا وَاَقْنٰى : اور جائیداد بخشی۔ دولت مند کیا
اور بلاشبہ وہی غنی کرتا اور مفلس بناتا ہے
بلاشبہ وہی دل کا غنی کرتا ہے اور وہی مال سے مالا مال کردیتا ہے 48 ؎ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انسان کو دل کا غنی بنا دیتا ہے۔ مال اس کے پاس کم ہو یا زیادہ لیکن وہی ہے جس نے بعض لوگوں کو مال سے مالا مال کردیا ہے لیکن دل کے وہ کنگال ہیں۔ (اغنی) کا اصل مادہ غ ن ی ہے۔ (اغنی) وہ کام آیا ۔ اس نے غنی بنا دیا۔ اس نے دولت دی۔ اگناء سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ (غنی) بےنیاز ‘ غیر محتاج ‘ کم مہتاج ‘ قانع ‘ مالدار ‘ غنا کے تین معنی ہیں۔ (1) بالکل محتاج اور ضرورت مند نہ ہونا۔ بےنیاز ہونا اور ظاہر ہے کہ ایسا غنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ (2) کم ضرورت مند ہونا ‘ قانع ہونا اور یہ صفت ہر قانع کی ہے۔ (3) بہت زیادہ مالدار ہونا۔ (اغنی) اس جگہ اقنی کے مقابلہ میں ہے اس لئے اس جگہ مراد دل کا غنی یعنی قانع ہی ہو سکتا ہے اور قانع دل کے غنی ہی کو کہتے ہیں۔ (اقنی) کا مادہ ق ن ی ہے۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ (اقنیٰ ) اس نے خزانہ دیا۔ گویا مال سے مالا مال کردیا لیکن جس کو اس طرح مالا مال کردیا گیا وہ دل کا ایسا کنگال ہے کہ گویا وہ فقیر ہے کہ مزید لینے کو اس کا جی چاہتا ہے اور دینے کے لئے وہ تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا دل اس بات کو قبول کرتا ہے۔ ان مالداروں کا ذکر پیچھے آیت 33 ‘ 34 میں گزر چکا ہے اور ان کی صفت دوسری جگہ خود قرآن کریم نے بہت وضاحت سے بیان کردی ہے جہاں فرمایا ہے کہ : (الذی جمعمالہ و عدوہ) کہ وہ مال کو جمع کرنے اور گن گن کر رکھنے کا عادی ہوجاتا ہے نہ خود استعمال کرتا ہے اور نہ دوسروں کو کرنے دیتا ہے اور اس کو مال سنبھال سنبھال کر رکھنے کا بہت شوق ہے اس طرح وہ مال کے لحاظ سے تو بہت غنی ہے لیکن دل کا کنگال ہے اور اس کے مقابلہ میں وہ غنی ہے جس کے پاس مال کے خزانے جمع نہیں ہیں لیکن مال کو صرف کرنے کا اس کو بہت شوق ہے جو کچھ اس کے پاس ہوتا ہے اس پر قناعت کرتا ہے اور کوئی شخص اس کو نہیں سمجھ سکتا کہ اس کے پاس کسی چیز کی کمی ہے بلکہ سمجھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ یہ شخص بہت مالدار ہے اگرچہ وہ محض سفید پوش ہو اور اپنی حالت کو ظاہر نہ ہونے دیتا ہو گویا وہ دل کا غنی ہے۔ عام طور پر (اقنیٰ ) کے معنی یہی بیان کئے جاتے ہیں۔ چناچہ حافظ ابن کثیر ؓ فرماتے ہیں : و علی ھذا یدور کلام کثیر من المفسرین منھم ابو صالح وابن جریر و غیر ھما ” ابو صالح ابن جریر وغیرہ کا کلام اس معنی میں دائر ہے لیکن ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (اقنیٰ ) کے معنی ارضی اس نے راضی… کیا کہ نقل کئے ہیں۔ (فتح القدیر المشوکانی ج 5 ص 115) علامہ محمد آلوسی (رح) کی تصریح ہے کہ : یہ معنی تنبیہ سے مجاز آلئے گئے ہیں۔ روح المعانی ج 27 ‘ ص 57) راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ اس معنی کی حقیقت یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے رضا وطاعت کا سرمایہ کردیا۔ مجاہد ‘ قتادہ اور حسن بصری ؓ نے (اقنیٰ ) کے معنی اخدم کے کئے ہیں یعنی اس نے خادم عطا فرمایا یا فرمائے۔ (تفسیر ابن کثیر ج 9 ص 338 طبع مصر بر حاشیہ فتح البیان) لیکن خیال رہے کہ یہ دونوں معنی بھی پہلے معنی میں داخل ہیں کیونکہ وہ اپنی عمومیت کے اعتبار سے دونوں پر مشتمل ہے۔ ابن زید ‘ ابن کسی ان اور اخفش (رح) (اقنیٰ ) کے معنی افقر کے کرتے ہیں یعنی اس نے کسی کو فقیر بنایا۔ شوکانی کا بیان ہے کہ ابن جریر بھی اس کو اختیار کرتے ہیں۔ (فتح القدیر ج 5 ص 113) مگر ابن کثیر (رح) کی رائے میں یہ معنی لفظ کے اعتبار سے بعید ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ص 338) لیکن خیال رہے کہ باب افعال کی ہمزہ سلب مآخذ کے لئے بھی آتی ہے جیسے اشقی اور اش کی سلب شفا اور سلب شکایت کے معنی میں بھی مستعمل ہیں اور اس اعتبار سے اگر (اقنیٰ ) کا بھی سلب تنیہ یعنی فقیر بنا دیتے ہیں تو یہ استعمال جائز ہے اور بعید ازعقل نہیں بلکہ یہ معنی سیاق کلام کے مناسب معلوم ہوتے ہیں کیونکہ پیچھے مقابل جن چیزوں کا ذکر چلا آ رہا ہے اور بعض مترجمین نے یہ معنی بھی کئے ہیں اور مفسرین نے بھی اس کو استعمال کیا ہے ۔ ہم نے ترجمہ میں تو پہلے معنی ہی استعمال کئے ہیں اس کو بحث موضوع بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور (الغنی غنی النفس) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ مال کے غنی سے دل کا غنی ہونا زیادہ قابل تعریف بات ہے۔ جس شخص کو اللہ نے ایسا دل دے دیا لا ریب وہ غنی ہوگیا اور اس غنا کو قرآن کریم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے جہاں فرمایا گا ک ہے کہ : (ووجدک عائلا فاغنی) (الضحیٰ 93 : 8) ” اور تمہیں نادار پیا اور پھر غنی بنا دیا “ اور آپ ﷺ کے غنا کی حالت یہ تھی کہ کبھی کسی کے سوال کو خالی ہاتھ نہیں پھیرا بلکہ جو کھچ پاس ہوا وہ سب کا سب بھی دے دیا اور خود خالی ہاتھ رہ گئے اور بعض اوقات قرض لے کر بھی ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا کردیا اور بعد میں قرض ادا کردیا۔
Top