Madarik-ut-Tanzil - Al-Maaida : 25
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ
قَالَ : (موسی نے) کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : میں بیشک لَآ اَمْلِكُ : اختیار نہیں رکھتا اِلَّا نَفْسِيْ : اپنی جان کے سوا وَاَخِيْ : اور اپنا بھائی فَافْرُقْ : پس جدائی کردے بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
موسیٰ نے (خدا سے) التجا کی کہ پروردگار میں اپنے اور اپنے بھائی کے سوا کسی اور پر اختیار نہیں رکھتا تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں جدائی کردے۔
غم و شکوہ کا اظہار : آیت 25 : قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ (کہا اے میرے رب میں اختیار نہیں رکھتا) تیرے دین کی مدد کے لئے اِلاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ (مگر اپنے اوپر اور بھائی پر) : اخی کا عطف نفسی پر ہو تو یہ معنی ہے مجھے اپنے نفس پر اور بھائی پر قابو ہے یا اِنّ کے اسم پر عطف ہو تو یہ معنی ہوگا۔ میں اختیار نہیں رکھتا مگر اپنے نفس پر اور میرا بھائی بھی اختیار نہیں رکھتا مگر اپنے نفس پر۔ یا یہ مرفوع ہے جبکہ اس کا عطف اِنّ اور اس کے اسم دونوں کے محل پر ہو۔ یا لا املک کی ضمیر پر اس کا عطف ہو اور فصل کے لیے یہ درست ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی ولا یملک اخی الا نفسہ اور میرا بھائی بھی مالک نہیں مگر اپنے نفس کا یا یہ مبتداء ہے اور اس کی خبر محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی واخی کذالک۔ میں اپنے اوپر قابو رکھتا ہوں اور میرا بھائی بھی اسی طرح ہے۔ یہ در حقیقت غم اور شکوہ ہے۔ جو بارگاہ الٰہی میں پیش کیا گیا ہے اور رقت قلب ہے تاکہ رحمت الٰہی کو جوش آئے۔ اور مدد خداوندی کا نزول ہو۔ گویا کہ ان دونوں آدمیوں پر کامل وثوق نہیں فرمایا اور فقط نبی معصوم کا ہی تذکرہ فرمایا۔ یا پھر مراد یہ ہے کہ میں اور جو دین کے سلسلے میں مجھ سے مواخات رکھنے والا ہے۔ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ (ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان جدائی ڈال دے) اور ان کے بارے میں وہ فیصلہ فرما جس کے وہ اہل ہیں۔ یہ ان کے متعلق بددعا کے مفہوم میں ہے یا ہمارے اور ان کے درمیان دوری پیدا کر دے اور ان کی معیت سے نجات عنایت فرما۔ جیسا دوسری آیت میں ہے : وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ [ التحریم : 11]
Top