Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 25
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ
قَالَ : (موسی نے) کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : میں بیشک لَآ اَمْلِكُ : اختیار نہیں رکھتا اِلَّا نَفْسِيْ : اپنی جان کے سوا وَاَخِيْ : اور اپنا بھائی فَافْرُقْ : پس جدائی کردے بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ، اے اللہ ! میں اپنی جان کے سوا اور اپنے بھائی کے سوا کسی پر اختیار نہیں رکھتا پس تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں فیصلہ کر دے
قوم کا لیڈر جب بےبس ہوجائے تو کیا کرے ؟ قوم سے بیزاری کا اظہار : 93: موسیٰ (علیہ السلام) قوم کے جواب سے مایوس ہو کر بارگاہ رب ذوالجلال میں اپنی عرضی پیش کرتے ہیں کہ ” اے اللہ ! میں اپنی جان کے سوا اور اپنے بھائی کے سوا اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا پس تو ہم میں اور ان نافرمانوں میں فیصلہ کردے۔ “ اس سے ایک تو یہ رہنمائی حاصل ہوئی کہ قوم جب اپنے لیڈر کے احکام کی نافرمانی کرے تو لیڈر ایسی قوم کو چھوڑ کر دو سری طرف نہ بھاگ جائے اور دوسری طرف ان کی اس نافرمانی پر پردہ ڈال کر اس کی کوئی غلط تعبیر بھی نہ کرے بلکہ اپنا کردار بالکل صاف رکھے نہ تو ان کی ہاں میں ملائے اور نہ ہی ان کو بھٹکتا چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرے۔ اس کا نتیجہ آج نہیں توکل اور کل نہیں تو پرسوں یقیناً ظاہر ہو کر رہے گا جو اس کے حق میں دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں اس کو سرخرو کردے گا۔ غور کرو کہ بنی اسرائیل کی قوم موسیٰ (علیہ السلام) کی ہدایت پر مصر کو چھوڑ کر نکلی تھی ظاہر ہے کہ وہ ساری نہ تھی اگرچہ اس کی خاصی تعداد ساتھ تھی۔ فرعون جو موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا قومی دشمن تھا جب غرق ہوگیا تو مصر کا انتظام بھی قوم بنی اسرائیل ہی کے ساتھ میں آیا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) جو اللہ کے نبی اور سیاسی لیڈر بھی تھے وہاں کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے واپس دار الخروج کی طرف نہیں گئے بلکہ اپنے ساتھ کی قوم کو بھی مصر کے اقتدار میں حصہ نہیں لینے دیا ۔ ان کو وہ راستہ بتایا جس سے ان کو اقتدار بھی حاصل ہو اور قومی تنازعات سے بھی بچاجائے جو واپس جانے سے کھڑے ہو سکتے تھے۔ قوم نے اس غصہ میں کہ ان کے واپس مصر کیوں نہیں جانے دیا گیا اور ان انعامات سے کیوں فائدہ حاصل نہیں کرنے دیا گیا ایک قدم بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ سیدھا نہیں دیا بلکہ اپنی چال الٹی ہی رکھی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو تنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی وہ آگے قدم بڑھانے کی بجائے پیچھے ہی دیکھتے رہے اپنے مذہبی اور سیاسی راہنما کو پریشان رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان ساری تکلیفوں کو اللہ کے رسول سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے برداشت کیا جس کے نتیجہ میں ساری زندگی اپنی مہاجر قوم کے ساتھ بسر کی لیکن جس مقصد کے لئے آپ کو تنگ کیا گیا چونکہ وہ قوم کی اندرونی حالت کے لئے نقصان دہ تھا آپ نے کبھی اس کو اختیار نہیں کیا اس طرح قومی فائدہ کی خاطر اپنا ذاتی فائدہ قربان کر کے سیاسی لیڈروں کے لئے ایسی راہنمائی چھوڑی جو رہتی دنیا تک لوگوں کے کام آتی رہے گی اس راہنمائی سے آج دنیا کی بہت قومیں اور خصوصاً یہود ونصاریٰ بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں اگرچہ وہ مذہبی نہ سہی سیاسی سہی لیکن قوم مسلم جس کے لئے یہ سارا پروگرام بنایا گیا تھا اس وقت اس سے کچھ بھی فائدہ نہ حاصل کرسکی اور قوم کو لیڈ کرنے والوں نے اس ہدایت سے کچھ فائدہ حاصل نہ کیا عوام تو پہلے ہی کلانعام ہوتے ہیں خواص نے بھی اس طرف دھیان نہ دیا۔
Top