Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 25
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ
قَالَ : (موسی نے) کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : میں بیشک لَآ اَمْلِكُ : اختیار نہیں رکھتا اِلَّا نَفْسِيْ : اپنی جان کے سوا وَاَخِيْ : اور اپنا بھائی فَافْرُقْ : پس جدائی کردے بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
اس پر موسیٰ نے (اپنے رب کے حضور) عرض کیا کہ اے میرے رب میں کوئی اختیار نہیں رکھتا مگر اپنی جان کا اور اپنے بھائی کا، پس تو جدائی ڈال دے ہمارے اور ان بدکار لوگوں کے درمیان،
68 اللہ کے سوا کوئی بھی مختار کل نہیں : سو اس پر حضرت موسیٰ نے اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ اے میرے رب میں کوئی اختیار نہیں رکھتا سوائے اپنی ذات کے اور اپنے بھائی کے بارے میں۔ اور جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتے تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جو اس شان کا مالک ہو اور اس کو مختار کل مانا جائے ؟۔ سو مختار کل اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ پس اس سے اہل بدعت کے مختار کل کے خود ساختہ شرکیہ عقیدے کی جڑ کٹ جاتی ہے ۔ خدا کرے ایسی باتیں ان کے لئے سرمہ بصیرت ثابت ہوں۔ ان کو ہدایت مل جائے اور وہ ان شرکیات سے باز آجائیں ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ ۔ بہرکیف قوم کے اس حوصلہ شکن جواب پر حضرت موسیٰ نے اپنے رب کے حضور اپنے عجز و انکسار اور اپنی بےبسی کا اس طرح اظہار فرمایا۔ اور اپنے رب کے حضور عجز و انکسار سے عرض کیا کہ میرے پروردگار ! میں اپنی جان اور اپنے بھائی کے سوا اور کسی پر کوئی زور اور اختیار نہیں رکھتا۔ پس تو اے ہمارے مالک ! ہمارے اور ہماری اس بد اطوار اور ناہنجار قوم کے درمیان تفریق فرما دے۔ یعنی اب ہمیں ان کی قیادت و اصلاح کی ذمہ داری سے سبکدوش فرما دے۔ کہ جب اتنی طویل جدوجہد اور اس قدر معجزات اور خوارق دکھانے کے باوجود ان لوگوں کا یہ حال ہے اور یہ میری اتنی بات بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتے اور میری ہدایت کے جواب میں اس قدر کفریہ باتیں کرتے ہیں تو پھر ایسے پتھروں پر جونک لگانے کا آخر کیا فائدہ ؟ پس تو اے ہمارے مالک ہمارے اور ان کے درمیان تفریق اور جدائے فرما دے۔ 69 ایمان و یقین ذریعہ سکون وقرار : سو حضرت موسیٰ نے اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ تو جدائی ڈال دے ہمارے اور ان بدکار لوگوں کے درمیان حقیقت اور انجام کے اعتبار سے۔ سو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون ۔ علیھما الصلوۃ والسلام ۔ تو اپنی پیغمبرانہ شان اور سکون و اطمینان کے ساتھ رہتے تھے مگر یہ لوگ حیران و سرگرداں مارے مارے پھر رہے تھے۔ بلکہ ان دونوں حضرات کے لئے کہ وہ وادی نعمائے الٰہیہ کا مظہر بن گئی تھی۔ (معارف از دیو بندی ) ۔ سو ایک ہی وادی میں ہونے کے باوجود قوم موسیٰ تو اپنی بدبختی کے باعث دھکے کھارہی تھی اور حضرت موسیٰ و ہارون اپنے ایمان و یقین کی قوت اور اپنے تعلق مع اللہ کی بنا پر اسی وادی میں سکون و اطمینان اور دوسری طرح طرح کی نعمائے الٰہیہ سے سرفراز ہو رہے تھے۔ سو ایمان و یقین اور تعلق مع اللہ کی دولت سکون وقرار کا ذریعہ اور دارین کی سعادت و سرخروئی کا وسیلہ ہے۔ بہرکیف حضرت موسیٰ نے جب اپنی قوم سے شکستہ دل اور مایوس ہو کر اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ اب چونکہ ان لوگوں کے ساتھ میرا نباہ نہیں ہوسکتا اور یہ لوگ ہماری بات سننے ماننے کو تیار نہیں اس لئے ہمارے اور ان کے درمیان جدائی ڈال دے۔ تو ویسے ہی ہوا اور اس کے نتیجے میں ان کو دنیاوی سزا بھی ملی کہ ارض مقدس میں داخلے کے فوری انعام سے محروم ہوگئے۔ اور اخروی سزا الگ رہی۔ اس کے تین سال بعد حضرت ہارون کا انتقال ہوگیا اور اس کے ایک سال بعد حضرت موسیٰ بھی چل بسے۔ اور اس طرح ان کے درمیان اور ان کی قوم کے درمیان ہمیشہ کی جدائی ہوگئی۔
Top