Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 25
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ
قَالَ : (موسی نے) کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : میں بیشک لَآ اَمْلِكُ : اختیار نہیں رکھتا اِلَّا نَفْسِيْ : اپنی جان کے سوا وَاَخِيْ : اور اپنا بھائی فَافْرُقْ : پس جدائی کردے بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
(موسی (علیہ السلام) نے) عرض کی اے میرے پروردگار میں تو سوا اپنے اور اپنے بھائی کے اور کسی پر اختیار رکھتا نہیں، سو تو ہی ہمارے اور (اس) بےحکم قوم کے درمیان فیصلہ کردے،101 ۔
101 ۔ یعنی فیصلہ ان دو فریقوں کے درمیان، جن میں ایک طرف ہم دو بھائی ہیں، بےبس وبے اختیار، اور دوسری طرف یہ جم غفیر ہے، ہر طرح گستاخ ونافرمان۔ (آیت) ” اخی “۔ بھائی سے مراد حضرت ہارون (علیہ السلام) تھے، جو خود بھی پیغمبر برحق تھے، یہ دعا ظاہر ہے کہ ان پیغمبران برحق نے اپنی ناکارہ قوم کی سرکشی اور بغاوت اور اپنی بےبسی پوری طرح محسوس کرنیکے بعد ہی کی، توریت کے صفحات اسرائیلیوں کی گستاخانہ روش کے تذکرہ سے لبریز ہیں۔ آیت میں بڑی تسکین کا سامان اکابر امت کیلیے ہے، قوم جب سرکشی اور نافرمانی کے لیے تل جائے، تو پیغمبران برحق تک کی کوششیں ناکام رہتی ہیں۔ پھر کسی ولی یا بزرگ کی سعی اصلاح اگر نام رہے تو وہ دل شکستہ کیوں ہو۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ دعائے موسوی میں لفظ اخی کے بڑھانے سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ شیخ اپنے مخلص تابع میں بھی وہی حاکمانہ تصرف رکھتا ہے جو خود اپنے نفس میں۔
Top