Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 25
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ
قَالَ : (موسی نے) کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : میں بیشک لَآ اَمْلِكُ : اختیار نہیں رکھتا اِلَّا نَفْسِيْ : اپنی جان کے سوا وَاَخِيْ : اور اپنا بھائی فَافْرُقْ : پس جدائی کردے بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
اس پر موسیٰ نے کہا اے میرے رب میں سوائے اپنے اور اپنے بھائی کے اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا ہو تو ہمارے اور اس بےحکم قوم کے درمیان فیصلہ کر دے ۔3
3۔ بنی اسرائیل کے اس گستاخانہ جواب کو سن کر حضرت موسیٰ نے جناب باری میں عرض کیا اے میرے پروردگار ! میں سوائے اپنے اور اپنے بھائی کے اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا یعنی میرا کسی پر بس نہیں چلتا مگر میری جان پر اور میرے بھائی پر بس چلتا ہے لہٰذا اب آپ ہمارے اور اس نافرمان قوم کے مابین فیصلہ فرما دیجئے۔ (تیسیر) یہ جو فرمایا الانفسی واخی اس میں علماء نے کم و بیش چھ طرح ترکیب بیان کی ہے ہم نے ایک شکل کو اختیار کرلیا ہے ایک مطلب اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اے میرے رب میں سوائے اپنی جان کے کسی اور پر اختیار نہیں رکھتا اور میرا بھائی سوائے اپنی جان کے کسی اور کا اختیار نہیں رکھتا…… بہر حال حضرت موسیٰ کا یہ کلام انتہائی حسرت و افسوس اور طلب نصرت و معونت کو ظاہر کرتا ہے ۔ رہا یہ شہ کہ اس موقع پر حضرت موسیٰ نے صرف اپنے بھائی کا نام لیا اور یوشع بن نون اور کالب بن یوقنا کا ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ بارہ سرداروں میں سے یہ دوسردار وفادار ثابت ہوئے تھے اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے انتہائی پریشان کی حالت میں یہ دعا کی تھی اور پریشانی میں ایسا ہوجاتا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ طبعاً بھی اس دعا میں شریک نہیں تھے اور ہوسکتا ہے کہ اخی عام ہو خواہ وہ نسبی بھائی ہو، یا دینی بھائی ہو جیسا کہ بعض نے اختیار کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بارہ میں سے دس نے خلاف ورزی کا ارتکاب کیا تھا اندیشہ ہوا ہو کہ نہ معلوم یہ دو بھی آگے چل کر کیسے ثابت ہوں اس لئے ان کا ذکر نہ کیا ہو اور ہارون چونکہ پیغمبر تھے۔ ان کی عصمت پر پورا اعتماد تھا اس لئے ان کا نام لے کر دعا میں شریک کرلیا ہو۔ فافرق کا یہ مطلب نہیں کہ ہم میں اور ہماری قوم میں جدائی ڈال دے اور ہم کو الگ الگ کر دے کیونکہ حضرت موسیٰ اور ہارون تادم وفات اپنی قوم میں رہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہم میں ایسا فیصلہ فرما دے جو ہر فریق کے حال کے مناسب اور اس کی شان کے شایان ہو۔ یا یہ مطلب ہو کہ اگر تو کوئی عذاب نازل کرے تو ہم کو جدا کر دیجیو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخرت کی جانب اشارہ ہو کہ قیامت میں سزا دیتے وقت مجھ کو اور میرے بھائی کو الگ کر لیجیو۔ اگرچہ ان مختلف اقوال میں راجح دہی پہلا قول ہے۔ (واللہ اعلم) غرض ! دعا کا خلاصہ یہ ہے کہ اے میرے پروردگار ! قوم کی نافرمانی اور گستاخی تیرے سامنے ہے میں سوائے اپنی جان کے اور اپنے بھائی کے کسی اور پر زور نہیں رکھتا اور نہ سوائے اپنے اور اپنے بھائی کے کسی پر بس چلتا ہے، لہٰذا ہم میں اور اس سرکش و نافرمان قوم کے مابین کوئی ایسا مناسب فیصلہ کردیجیے جو ہر فریق کی شان کے شایاں اور ہر فریق کی حالت کے لائق ہو۔ اب آگے حضرت حق تعالیٰ کی جانب سے اس دعا کا جواب ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top