Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 25
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ
قَالَ : (موسی نے) کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : میں بیشک لَآ اَمْلِكُ : اختیار نہیں رکھتا اِلَّا نَفْسِيْ : اپنی جان کے سوا وَاَخِيْ : اور اپنا بھائی فَافْرُقْ : پس جدائی کردے بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
بولا اے رب میرے میرے اختیار میں نہیں54 مگر میری جان اور میرا بھائی سو جدائی کر دے تو ہم میں اور اس نافرمان قوم میں
54 قَالَ رَبِّ الخ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کا گستاخانہ جواب سنا اور احکام ربانی سے ان کی بےاعتنائی اور بےرخی ملاحظہ فرمائی تو ان سے مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ سے مناجات کرنے لگے کہ اے اللہ اس سرکش اور متمرد قوم پر میرا کوئی بس اور زور نہیں چلتا اور وہ تیرے احکام کو نہایت حقارت آمیز طریق سے ٹھکرا رہے ہیں۔ مجھے تو بس اپنی ذات اور اپنے بھائی ہارون پر اختیار ہے اس لیے ہم حاضر ہیں۔ دعاء میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھ صرف حضرت ہارون (علیہ السلام) ہی کا ذکر کیا ہے حالانکہ یوشع اور کالب بھی مخلص اور فرمانبردار تھے ان کا ذکر نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اخلاص چونکہ ان کی گفتگو سے ظاہر ہوچکا تھا اس لیے انہوں نے ان کے دوبارہ ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ یہ سرکش بنی اسرائیل پر بد دعاء ہے یعنی اے اللہ ہمارے اور ان کے درمیان جدائی ڈال دے اور ہمیں ان کی صحبت سے نجات عطا فرمایا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور ان کے حق میں وہ فیصلہ فرما دے جس کے ہم اور وہ مستحق ہیں۔ یعنی فافصل بیننا و بینہم بان تحکم لنا بما نستحق و تحکم علیہم بما یستحقون وھو فی معنی الدعاء علیہم ویحتمل ان یکون المراد خلصنا من صحبتہ۔
Top