Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 25
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ
قَالَ : (موسی نے) کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : میں بیشک لَآ اَمْلِكُ : اختیار نہیں رکھتا اِلَّا نَفْسِيْ : اپنی جان کے سوا وَاَخِيْ : اور اپنا بھائی فَافْرُقْ : پس جدائی کردے بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
موسیٰ نے (خدا سے) التجا کی کہ پروردگار میں اپنے اور اپنے بھائی کے سوا کسی اور پر اختیار نہیں رکھتا تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں جدائی کردے۔
انسان اپنے نفس کا کہاں تک مالک ہے قول باری ہے (قال رب انی لا املک الا نفسی واحی۔ اس پر موسیٰ نے کہا۔ ” اے میرے رب ! میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر میری اپنی ذات یا میرا بھائی) یہ بات بھی مجازا کہی گئی ہے اس لئے کہ کوئی انسان نہ اپنی ذات کا حقیقۃً مالک ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے آزاد بھائی کا۔ یہ اس لئے کہ ملک کے اصل معنی قدرت کے ہیں۔ اور یہ بات محال ہوتی ہے کہ کوئی شخص اپنی ذات پر یا اپنے بھائی پر قدرت رکھتا ہو پھر ملک کے اسم کا تصرف کے معنوں پر اطلاق کیا گیا اور اس طرح مملوک کو اس شخص کے حکم میں کردیا گیا جو پوری طرح قابو میں ہو۔ اس لئے کہ قابو پانے والا انسان یعنی آقا اپنے مملوک کو اسی طرح اپنے اشاروں پر چلاتا ہے جس طرح اس شخص کو جو پوری طرح اس کے قابو میں ہوتا ہے۔ اس جگہ آیت کے معنی ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کردیا کہ وہ اس کی اطاعت میں اپنی ذات کو جس رخ پر چاہیں چلا سکتے ہیں۔ آپ نے اپنے بھائی پر بھی اس کا اطلاق کیا اس لئے کہ آپ کے بھائی آپ کے حکم پر چلتے اور آپ کی بات پر قائم رہتے تھے۔ ابوبکر ؓ کے احسانات کا حضور ﷺ نے اعتراف فرمایا حضور ﷺ کا ارشاد (ما احد من علی بنفسہ و ذات یدہ من ابی بکر کسی شخص نے اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ ابوبکر ؓ سے بڑھ کر مجھ پر احسان نہیں کیا) یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ رو پڑے اور عرض کیا۔ ” اللہ کے رسول ! میں اور میرا مال سب کچھ آپ کے لئے ہے “ یعنی آپ مجھے جس طرح موڑیں گے میں مڑ جائوں گا اور میرے مال میں آپ جو تصرف کریں گے وہ جائز ہوگا۔ اسی طرح حضور ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا تھا (انت ومالک لا بیک تو اور تیرا مال سب کچھ تیرے باپ کا ہے) آپ نے یہاں ملکیت کے حقیقی معنی مراد نہیں لئے تھے۔
Top