Tafseer-e-Saadi - Maryam : 34
ذٰلِكَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ١ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم قَوْلَ : بات الْحَقِّ : سچی الَّذِيْ فِيْهِ : وہ جس میں يَمْتَرُوْنَ : وہ شک کرتے ہیں
یہ مریم کے بیٹے عیسیٰ ٰ ہیں (اور یہ) سچ بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں
آیت 34 یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان صفات سے متصف ہیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں بلکہ یہ قول حق اور اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس سے زیادہ سچی اور اچھی کسی اور کی بات نہیں۔ پس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بابت دی ہوئی خبر، علم یقینی ہے اور اس کے خلاف جو کچھ کہا گیا ہے وہ قطعی طور پر باطل ہے۔ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ قائل کا محض شک ہے جو علم سے بےبہرہ ہے، اس لئے ارشاد فرمایا : (الذی فیہ یمترون) ” جس میں لوگ جھگڑتے ہیں “ یعنی شک کرتے ہیں اور شک کی بنیاد پر جھگڑتے اور اندازوں کی بنیاد پر بحث کرتے ہیں۔۔۔. ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ ہیں، یا اللہ کے بیٹے ہیں یا تین میں سے ایک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی افتراء پردازی سے بہت بلند اور بالاتر ہے۔ (ما کان للہ ان یتخذ من ولد) ” نہیں لائق اللہ کے کہ پکڑے وہ اولاد “ یعنی یہ بات اللہ تعالیٰ کے لائق ہی نہیں، کیونکہ یہ ایک امر محال ہے۔ اللہ تعالیٰ بےنیاز اور قابل ستائش ہے وہ تمام مملکتوں کا مالک ہے۔ پس وہ اپنے بندوں اور غلاموں کو کیسے اولاد بنا سکتے ہیں ؟ (سبحنہ) اللہ تبارک و تعالیٰ ہر نقص اور بیٹے کی حاجت سے پاک اور مقدس ہے۔ (اذا قصی امرا) یعنی جب بھی اللہ تعالیٰ چھوٹے یا بڑے معاملے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ معاملہ اس کے لئے مشکل اور ممتنع نہیں ہوتا۔ (فانما یقول لہ کن فیکون) ” تو وہ صرف یہی کہتا ہے کہ ہوجا، پس وہ ہوجاتا ہے “ جب اس کی قدرت اور مشیت تمام عالم علوی اور سفلی پر نافذ ہے تو اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے ؟ اور جب وہ کسی چیز کے وجود کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے (کن) ” ہوجا “ (فیکون) ” تو وہ چیز ہوجاتی ہے۔ “ تب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے وجود میں لانا کون اس مشکل کام ہے ؟ اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بارے میں آگاہ فرمایا کہ وہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں جس طرح دوسری مخلوق ہے۔ فرمایا : (وان اللہ ربی و ربکم) ” بیشک اللہ رب ہے میرا اور رب ہے تمہارا “ جس نے ہمیں پیدا کیا، ہماری صورت گری کی، ہم میں اس کی تدبیر نافذ ہوئی اور ہم میں اس کی تقدیر نے تصرف کیا۔ (فاعبدوہ) ” پس تم اسی کی عبادت کرو “ یعنی عبادت کو صرف اسی کے لئے خالص کرو اور اس کی طرف انابت اور رجوع میں جدوجہد کرو۔ اس میں توحید ربوبیت اور توحید الویت کا اقرار اور توحید ربوبیت کے ذریعے سے توحید الوہیت پر استدلال ہے۔ اسی لئے فرمایا : (ھذا صراط مستقیم) ” یہ ہے راستہ سیدھا “ یعنی یہی اعتدال کا راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے کیونکہ یہ انبیاء ومرسلین اور ان کی متبعین کا راستہ ہے اس کے سوا ہر راستہ گمراہی کا راستہ ہے۔
Top